ذیشان: بچوں کا ناول قسط 19 اظہر نیاز(آخری قسط)

بلی آنکھوں والے نے اپنے سکیورٹی گارڈ کو اشارہ کیا جاؤ ذیشان کو لے اؤ.
تھوڑی دیر بعد واکی ٹاکی پر سکورٹی گارڑ کی آواز سنائی دی. باس ! ذیشان تو وہاں نہیں ہے اور مجھے مسٹرآغا کے آدمیوں نے پکڑ لیا ہے.
ذیشان وہاں نہیں ہے
یس باس
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر آغا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گفتگو کا وقت ختم ہو چکا ہے. تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گفتگوختم ہونے کا مطلب ایک بڑی طاقت اور ایک بہت چھوٹی طاقت کے درمیان گفتگو ختم ہونا ہے. ابھی بھی وقت ہے اپنے سپاہیوں کو میرے بنگلے سے باہر لے جاؤ ورنہ میں یہ بٹن دبانے لگا ہوں اور پھر تمہارے پاس صرف پانچ منٹ رہ جائیں گے اور ان پانچ منٹوں میں تم شاید اپنے بیٹے کو ہسپتال بھی نہ پہنچا سکو.

اس سے پہلے کہ آغا صاحب کوئی فیصلہ کرتے وائرلیس پر انہیں انسپیکٹر شعیب کا پیغام موصول ہوا .آغا صاحب اپنے سپاہیوں کے ساتھ بنگلے سے باہر نکل آئیں. یہ نہیں ہو سکتا .
آغا صاحب آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں
ہمارے پاس وقت بہت کم ہے آپ بنگلے سے باہر نکل ائیں اور مین گیٹ کے پاس آکر میری بات سنیں.
رائٹ آغا صاحب نے کہا اور اپنے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ وہ باہر نکل جائیں.
بلی آنکھوں والا بہت زور سےقہقہے لگا رہا تھا اور سپاہی بڑی خاموشی سے باہر نکل رہے تھے.

آغا صاحب جو ہی دروازے سے باہر نکلے تو تخریب کاروں کے ساتھیوں نے دوبارہ اپنا اسلحہ سنبھال لیا. بلی آنکھوں والے سفید ریچھ نے زور سے آواز دیتے ہوئےآغا صاحب سے کہا آغا اپنے بیٹے کو ہسپتال لے جاو. میں نے بٹن دبا دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی تخریب کاروں نے اپنے بنگلے سے سپاہیوں پر فائر کھول دئے. آغا صاحب نے گیٹ پہ آتے ہی انسپیکٹر شعیب کی طرف دیکھا؟
آپ تسلی رکھیں انسپیکٹر شعیب نے آغا صاحب کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا. اندر جو کچھ ہو رہا تھا مجھے ایک ایک بات کا پتہ لگ رہا تھا میں نے ذیشان کو پہلے ہی ہسپتال پہنچا دیا ہے. آپ فورا وہاں پہنچیں.

ٹھیک ہے میں جاتا ہوں لیکن اس بنگلے کے اندر سے کوئی زندہ بھاگنے نہ پائے .آغا نے جلدی سے کہا اور ہسپتال روانہ ہو گئے.
اور انسپیکٹر شعیب سوچنے لگا کہ جو کچھ ذیشان نے بنگلے کے اندر کیا ہے اس کے بعد کوئی بھی اس بنگلے سے باہر نہ جا سکے گا.
آغا صاحب کے جاتے ہی انسپیکٹر شعیب نے ہسپتال بات کی تو پتہ چلا کہ ابھی تک ذیشان کے جسم سےکیپسول باہر نہیں نکل سکا .
کیا اپریشن کیا جا رہا ہے ؟ انسپیکٹر شعیب نے پوچھا
نہیں دوسری طرف سے جواب جواب دیا گیا کہ ڈاکٹر قدیرخان کی دریافت ایک انجیکشن ہے جسے لگانے سے جسم کے اندر جو بھی اینٹی باڈی ہو وہ باہر نکل جاتی ہے. وہ انجیکشن لگا دیا گیا ہے لیکن ابھی تک وہ کیپسول باہر نہیں نکلا
دیکھو اب صرف تقریبا چار منٹ باقی ہیں انسپیکٹر شعیب نے جلدی سے کہا خدانہ کرے وہ ٹائم بم پھٹ جائے. ڈاکٹروں سے کہو وہ جلدی کریں.

آغا صاحب ٹھیک پانچ منٹ بعد ہسپتال کے دروازے پر تھے. زخمی ہونے کی وجہ سے ان کا اپنا خون کافی نکل چکا تھا لیکن ذیشان کی وجہ سے وہ کانپ رہے تھے. وہ دروازے ہی پر کھڑے ہو گئے لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اپریشن تھیٹر کے باہر تھے. وہاں سے پتہ چلا کہ ذیشان ڈاکٹرصدیقی کے کمرے میں ہے.اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹھیک ہے. آغا نے اپنے اپ کو سنبھالا. ڈاکٹر صدیقی کے کمرے میں پہنچے تو ذیشان اور ڈاکٹر کسی بات پر ہنس رہے تھے ان کو دیکھتے ہی آغا عمران کی جان میں جان ائی. انہوں نے جاتے ہی ذیشان کو اپنے آپ سے لپٹا لیا اور بچوں کی طرح رونے لگے.

ڈاکٹر صدیقی نے فون کر کے ایمرجنسی سے ڈاکٹروں کو بلایا اور آغا صاحب کے بازو سے گولی نکال کر مرہم پٹی کرنے کے لیے کہا. مرم پٹی کے بعد ڈاکٹر صدیقی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ذیشان کے جسم میں موجود کیپسول کے دو حصے تھے ایک ٹرانسمیٹر تھا اور دوسرا ٹائم بم تھا. ہم وقت سے تقریبا ایک منٹ پہلے کیپسول باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے. بم ڈسپوزل کو ظلب کر لیا گیا تھا جنہوں نے فوری طور پر اسے ناکارہ بنا دیا.

آغا صاحب نے اطمینان کا سانس لیا تو ذیشان نے پوچھا ابو آپ کے ہوتے ہوئے بنگلے میں کوئی دھماکہ تو نہیں ہوا؟
نہیں لیکن کیا وہاں کوئی دھماکہ ہونے والا تھا ؟
اغا نے ذیشان سے پوچھا تو ذیشان نے کہا ہاں میرے خیال میں اب تک تو وہاں دھماکہ ہو چکا ہوگا اور پھر ذیشان نے اپنے ابو کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے تخریب کاروں نے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا لیکن میں کھڑکی توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر بنگلے کے اندر گھومنے لگا. بنگلے کے اندر گھومتے گھومتے ان کے تہ خانے میں چلا گیا. تہ خانے کے دروازے پر بہت بڑا تالا لگا ہوا تھا. میں نے ایک سلاخ کر لیور بنا کر وہ تالا توڑ ڈالا .میرا خیال صحیح نکلا اس تہہ خانے میں گولا بارود ،اسلحہ اورڈالر کے باکس پڑے تھے.

میں نے ایک رسی کے ایک سرے کو آگ لگا کر دوسرا سرا بارود کے ڈھیر میں دبا دیا اور ٹائم بموں کو اپنی سمجھ کے مطابق سیٹ کر دیا. کچھ نہ کچھ تو کام ہوگا کہ اگر ٹائم ہم نہ چلے تو رسی ضرور جلتے جلتے بارود کے ڈھیر تک پہنچ جائے گی اور پھر میں نے باہر نکل کر دروازے کو بند کر دیا. باہر نکلتے ہی مجھ کو سپاہیوں نے دیکھ لیا اور مجھے انسپیکٹر شعیب کے پاس لے گئے اور انہوں نے فوری طور پر مجھے ہسپتال پہنچا دیا اور غالبا آپ نے انہیں اتنا مصروف رکھا کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کب اور کہاں پہنچ گیا.

انسپیکٹر شعیب نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تخریب کاروں کو پکڑ سکے تاکہ اس بین الاقوامی سازش کا پتہ لگ سکے. بار بار میگا فون پر اعلان کیا گیا کہ آپ سب لوگ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیں اور باہر نکل آئیں کیونکہ یہ بنگلہ دھماکے سے اڑنے والا ہے لیکن جوابا تخریب کاروں نے گولیاں چلانا شروع کر دی اور انسپیکٹر شعیب کا اعلان سنا ان سنا کر دیا.آخر آگ بارود تک پہنچ گئی. پہلے ہلکے پھلکے دھماکے ہوئے پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ تمام بنگلہ روشن ہو گیا اور وہ شاندار محل پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گیا. ملبے کے ڈھیر میں کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا کہ وہ بتا سکے کہ وہ کون ہیں کس کے اشارے پر اس ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں.
——————
اغا صاحب پولیس اکیڈمی جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے اور ذیشان نے چھٹیوں کے بعد آج پہلے دن اسکول جانا تھا آغا صاحب اکیڈمی جاتے ہوئے ذیشان کو سکول چھوڑتے ہوئے جاتے تھے جوں ہی وہ دونوں پولیس کار میں بیٹھے اور ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی مالی بابا نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر پاس آ کر ایک تحفہ آغا صاحب کے حوالے کیا اور کہنے لگا کہ ایک آدمی آ پ کے لیے دے گیا ہے.
گفت پیک کھولا تووہ بلیک مین پرفیوم تھا.
ذیشان نے فورا پوچھا بابا وہ آدمی کیسا تھا
تو بابا نے جواب دیا وہ سرخ رنگ کی جیپ میں تھا. بلی آنکھیں جو اپنے چہرے کے لحاظ سے چھوٹی تھیں. بال سنہرے تھے. میں نے اس سے نام بھی پوچھا تھا لیکن وہ اس نے کہا آغا صاحب مجھے اچھی طرح جانتے ہیں. تم بس یہ تحفہ ان تک پہنچا دینا.

ابو! ذیشان نے پریشان ہوتے ہوئے آغا صاحب سے پوچھا
کیا اس بنگلے کے سب تخریب کر بچ گئے ہوں گے
نہیں بیٹے صرف ان کا سردار بچا ہو گا . اور اس شخص کی پالیسی یہ ہے کہ وہ خطرناک موقعوں پر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا. اس بنگلے میں ضرور کوئی خفیہ راستہ ہوگا اور جس کا صرف اس شخص کو پتہ ہوگا اس نے اپنی جان تو بچا لی لیکن اپنے تمام ساتھیوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کے حوالے کر دیا.
اس کی دوستی اور دشمنی دونوں خطرناک ہیں خیر اللہ کی مدد ہمارے ساتھ رہی تو وہ دن ضرور ائے گا جب ہم اپنے دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر ماریں گے .