ذیشان: بچوں کا ناول قسط 18 اظہر نیاز

ذیشان نے اپنے پاؤں زمین پر رکھے تو کتوں نے بنگلے کو سر پر اٹھا لیا. رات کی خاموشی میں ان کے بھونکنے کی آوازوں نے ذیشان کو دہلا دیا. قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑتا یا رونے لگتا لیکن اس نے اللہ سے دعا مانگی یا اللہ مجھے حوصلہ دے اور مجھے طاقت دے کہ میں تیرے دشمنوں کے سامنے بہادری سے لڑ سکوں. اپنے ابو کو بچا سکوں اور اپنی پاک سرزمین کو ان تخریب کاروں سے پاک کر سکوں .

دل میں اس دعا کے لفظ جاگتے ہی اس کے پورے جسم میں ایک انجانی طاقت آگئی تھی اور وہ بھاگ کر ایک راہداری سے ہوتا ہوا ایک دروازے سے اندر داخل ہو گیا. دروازے سے اندر ہوتے ہی کتوں نے بھونکنا بند کر دیا.کلاشنکوف اٹھائے کچھ ڈاکو شکل لوگوں نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کیا لیکن کتوں کی آوازیں بند ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی کہیں دبک گئے.

ذیشان نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا اور ایک طرف کو راستہ پا کر آہستہ آہستہ ادھر بڑھنے لگا. ایک طرف سے کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور ذیشان آوازوں سے دور رہنا چاہتا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ آوازوں کی مدد سے تخریب کاروں کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کہاں ہے.

پھر اس نے سوچا کہ یہ سب لوگ جو اکٹھے ہیں تو شاید میرے جسم کے ٹرانسمیٹر کے سگنل کو کوئی واچ نہ کر رہا ہو. اس نے حوصلہ کر کے اس بڑے کمرے کے اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں تقریبا 50 لوگ موجود تھے عجیب و غریب خوفناک شکلیں وہ سب انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے اور اس بات پر متفق ہو رہے تھے کہ کس طرح اس ملک میں بد امنی پھیلا کرباہر سے حملے کی فضا کو ساز گار بنایا جائے.

ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو افغانستان میں اپنے کامیاب مشن کے بعد پاکستان میں اپنے مشن پر تھے. کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بنگلہ دیش سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کر چکے تھے. سب اپنے اپنے سابقہ تجربات اور کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے تھے.

ذیشان دھڑکتے دل کے ساتھ سب کچھ سن رہا تھا کہ اسے بلیک مین خوشبو محسوس ہوئی اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کے پیچھے وہی بلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والا سفید ریچھ اپنے خوفناک دانتوں کے ساتھ مسکرا رہا تھا.

انسپیکٹر شعیب لاکٹ سے نشر ہونے والے سگنل کی مدد سے سیکٹر زیڈ کی اس گلی تک پہنچ گئے تھے جس کے کونے پر طارق ابھی تک سائیکل کی چین درست کئیے جا رہا تھا. انسپیکٹر شعیب نے اپنی جیپ ٹھیک اس کے پاس کھڑی کی .طارق انسپیکٹر شعیب کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ کر رونے لگا. انکل وہ ذیشان کیا ہوا ذیشان کو؟
انسپیکٹر شعیب نے طارق کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا وہ اس بنگلے کے اندر چلا گیا ہے اور کافی دیر سے واپس نہیں آیا .اس نے کہا تھا کہ آپ ضرور آئیں گے میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا کہ میں آپ کو بتا دوں. مجھےبہت ڈر لگ رہا تھا لیکن میں کیسے جا سکتا تھا. آپ نے بھی آنے میں بہت دیر کر دی.
ٹھیک ہے اب تمہارا کام ختم ہو گیا. انسپیکٹر شعیب نے طارق کو شاباش دیتے ہوئے کہا اور ایک پولیس مین کو اشارہ کیا کہ وہ طارق کو اس کے گھر چھوڑ آئے. اور طارق سے کہا کہ اگراب تم اپنے گھر سے باہر نکلے تو میں تمہیں تھانے میں لے جا کر بند کر دوں گا. سمجھے.
ٹھیک ہے انکل طارق نے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا.

انسپیکٹر نے سیکٹر زیڈ کی تمام محاصرپولیس کو وائرلیس پر آگاہ کر دیا اور اپنے نئے ٹھکانے سے باخبر کر دیا اور حکم دیا کہ آہستہ آہستہ تمام پولیس اس طرف آجائے. انہیں مزید ہدایت کی کہ عوام کو پولیس کی حرکات و سکنات کا قطعی علم نہ ہو. ابھی انسپیکٹر شعیب اپنے کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ آغا صاحب موٹر سائیکل پر وہاں پہنچ گئے اور انسپیکٹر شعیب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.

آغا صاحب بضد تھے کہ وہ بنگلے کے اندر جا کر پہلے حالات کا جائزہ لیں گے اور بعد میں کسی ایکشن کی طرف قدم اٹھائیں گے. انسپیکٹر شعیب نے تھوڑی سی بحث کے بعد آغا صاحب کی بات مان لی اور اس طرح پورے کا پورا اپریشن آغا صاحب نے اپنے ہاتھ میں لے لیا .آغا صاحب نے انسپیکٹرشعیب سے کہا کہ وہ باہر ٹھہرے اور مزید آنے والی پولیس فورس کو چاروں طرف چھپا دے.اور کسی بھی اخری ایکشن سے پہلے ارد گرد کےتمام مکینوں کو کسی بھی ہنگامی صورتحال کے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے تاکہ بھگدڑ میں مجرموں کو بھاگنے کا موقع نہ ملے.

آغا صاحب نے چندبہترین تربیت یافتہ پولیس کے آدمیوں کا انتخاب کیا اور بنگلے کے اندر کود گئے. کتوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا بنگلے کے اندر مسلح افراد کے بوٹوں کی آواز کتوں کے بھونکنے کے ساتھ شامل ہو گئی تھی لیکن جلد ہی خاموش ہو گئی کیونکہ آغا صاحب کے آدمیوں نے سیکیورٹی گارڈز پر قابو پا لیا تھا اور ان کو بے بس کرنے کے بعد گھسیٹ کر ایک طرف چھپا دیا تھا اور کتوں کو بے آواز گولیوں نے موت کی نیند سلا دیا تھا.

آغا صاحب نے صورتحال کا جائزہ لیا. بڑے ہال کمرے میں میٹنگ جاری تھی .ملک کی تباہی کے منصوبے پر اس وقت سب اپنی مسکراہٹوں سےدستخط کر رہے تھے. آغا صاحب نے انسپیکٹر شعیب سے وائرلس پر بات کی اور کہا کہ میرا تو خیال تھا کہ یہ معمولی پھوڑا ہے لیکن یہ تو کینسر ہے.
فوری ایکشن پر عمل درامد کرو اور اپنی تمام فورس سے کہو کہ وہ اس بنگلے کو گھیرے میں لے لے اور ایک ایک کر کے اندر داخل ہو جائے کوئی بھی دہشت گر اس بنگلے سے بھاگنے نہ پائے. خاص طور پر مین گیٹ کے سامنے اپنے اہم آدمیوں کو لگا دو.

اس کے بعد آغا صاحب نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ اس خوف ناک محل کے تمام کمروں کا جائزہ لیں اور ذیشان کو تلاش کریں.
تمام پولیس والے چاروں طرف پھیل گئے اور آغا صاحب باہر سے اندر آنے والی پولیس کے مزید آدمیوں کی ذمہ داری لگانے لگے. انہوں نے آہستہ آہستہ بنگلے کی نگرانی کرنے والے تمام سکیورٹی گارڈ کو قابو کر لیا اور ہال کے گرد اپنے آدمی کھڑے کر دیے.
اس وقت تک بنگلے میں بالکل خاموشی تھی اور ایک گولی چلنے کی آواز بھی نہیں آئی تھی لیکن معلوم نہیں کس نے بے وقوفی کی اور ایک طرف سے کلاشنکوف کے برسٹ نے سب کو چونکا دیا.
. ایک پولیس مین نے آ کر بتایا کہ ایک پولیس افیسر مارا گیا ہے اور ان لوگوں کو ہمارے اندر آنے کا پتہ چل گیا ہے. یہ سنتے ہی آغا صاحب نے سوچا کہ اب مزید دیر کا وقت نہیں رہا. تمام پولیس فورس کو اشارہ کیا کہ وہ ہال کے اندر داخل ہو جائیں. تمام دروازوں سے پولیس داخل ہو گئی.اندر کے قہقہے یک دم خاموشی میں بدل گئے. آغا صاحب نے اپنی گرجدار آواز میں تمام لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لیں.

ان میں سے ایک شخص نے اپنے ہاتھ اٹھانے کے ساتھ ہی آغا صاحب پر گولی چلا دی. آغا صاحب نے اسے دیکھ لیا تھا. دونوں طرف سے بیک وقت فائر کا تبادلہ ہوا. وہ شخص تو میز کے اوپر ہی گر پڑا لیکن اس کی گولی سے آغا صاحب بھی زخمی ہو گئے تھے.
آغا صاحب پھر دھاڑے اگر کسی نے حرکت کی تو تمام لوگوں کو بھون کر رکھ دوں گا. اتنے میں ایک شخص جس کی بلی آنکھیں اور سنہرے بال تھے اور سفید جیسے نوکیلے دانت تھے. اس نے آغا صاحب کو مخاطب کیا. آغا عمران !
میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ ہماری راہ میں نہ آؤ لیکن تمہیں نہ تو اپنی جان عزیز ہے اور نہ اپنے بیٹے کی جان عزیز ہے. شاید اپنے بیٹے کی محبت ہی تمہیں ہمارے پاس کھینچ لائی ہے جو اس وقت میرے قبضے میں ہے اور میرا ایک اشارہ اسے موت کی نیند سلا سکتا ہے. اب تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم چپکے سے نکل لو.
بکواس بند کرو کتے
مجھے اپنے بیٹے کی نہیں وطن کی محبت یہاں کھینچ لائی ہے اور میں کسی قیمت پر تمہیں نہیں چھوڑوں گا. آغا صاحب زخمی تھے لیکن وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کی آواز میں ایک رعب اوردبدبہ نمایاں تھا. وہی سفید ریچھ پھر آغا صاحب سے مخاطب ہوا
تمہیں تو معلوم ہے کہ تمہارے بیٹے کے جسم کے اندر ایک ٹرانسمیٹر چھپا دیا گیا ہے. ہاں مجھے معلوم ہے آغا صاحب نے جواب دیا
ہمیں بھی معلوم ہو چکا تھا کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے اور اسی لیے تم اپنے بیٹے سے کاغذ پر لکھ لکھ کر باتیں کرتے تھے لیکن تمہیں شاید معلوم نہیں کہ اس کیپسول کا ایک حصہ طاقتور ٹائم بم بھی ہے. اور میں صرف ایک بٹن دباؤں تو ٹھیک پانچ منٹ کے بعد تمہارا بیٹا دھماکے سے اڑ جائے گا. نہ صرف تمہارا بیٹا بلکہ ارد گرد بھی کافی نقصان ہوگا.
آغا صاحب کو لگا جیسے گولی ان کے بازو میں نہیں بلکہ دل میں لگی ہو