ذیشان: بچوں کا ناول قسط 16 اظہر نیاز

دوسرے دن آغا صاحب نے پیغام بھجوا کر ذیشان کو بلوایا اور ایس انسپکٹر احمد کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کے قتل میں کسی طریقے سے بھی اس کا ہاتھ تو نہیں کیونکہ اس کی جیب سے جو خط ملا ہے وہ ذیشان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے. آغا صاحب نے ذیشان سے کہا کہ مجھے تو پتہ چل چکا ہے کہ وہ تمہارے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے لیکن پولیس خط لکھنے والے کی تلاش میں ہے. انہوں نے ذیشان کو یہ بھی بتایا کہ بعض پولیس افسران کا خیال ہے کہ لکھنے والے نے جان بوجھ کر خط ایسا بنایا ہے جیسے کہ کسی بچے نے لکھا ہو.

ذیشان نے اقرار کیا کہ خط تو اسی نے لکھا ہے لیکن اس کے قتل کے بارے میں اس کو کوئی علم نہیں. ذیشان نے اپنے ابو کو لکھ کر یہ بھی بتایا کہ اس نے اور اس کے دوست طارق نے مل کر شہر کے معززین اور حکومت کے اعلی افسران کو خط لکھے تھے کہ انسپیکٹر تخریب کاروں سے مل چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تخریب کار پکڑے نہیں جاتے اور تخریب کاروں کے دشمن کو اس نے جیل میں بند کروا دیا ہے.

اس کا مطلب یہ ہے آغا صاحب سوچنے لگے کہ تخریب کاروں نے خود ہی اس کو ٹھکانے لگا دیا ہے کہ اب انسپیکٹر احمد ان کے اپنے وجود کے لیے خطرہ بن گیا تھا. آغا صاحب نے لکھ کر ذیشان سے کہا کہ تم لوگوں نے بہت بڑی حماقت کی ہے. پولیس خطوط لکھنے والوں کو تلاش میں ہے. اور تمہاری شرارتوں کی وجہ سے کچھ پولیس افسروں کو تم پر شک بھی ہے اور ان کے خیال میں میں نے تمہارے وسیلے سے مل کر کسی کرائے کے قاتل کو حاصل کیا اور انسپیکٹر احمد کو مروا دیا. کیس میرے خلاف اور الجھ گیا ہے کیونکہ میری اور انسپیکٹر احمدکی دشمنی تو سب کے سامنے تھی.

ذیشان نے پریشان ہوتے ہوئے کہا اب کیا ہوگا؟
ہوتا تو وہی ہے آغا صاحب نے لکھا جو اللہ کو منظور ہوتا ہے لیکن انسان کو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے اور جب انسان جانتا ہو کہ وہ بے قصور ہے تو اسے صرف اپنے اللہ سے ڈرنا چاہیے. سچائی کے خلاف دنیا کے تمام جھوٹ بھی اکٹھے ہو جائیں تو بھی جیت نہیں سکتے. جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے.

ذیشان نے اپنے ابو کو ایک پرچے پر لکھ کر بتایا کہ انسپیکٹر احمد کے پاس پہلے دن جو بلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والا غیر ملکی اور ایک عام سا آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ دراصل تخریب کاروں کے اہم آدمی ہیں اور میں ان کا گھر جانتا ہوں. وہ سب لوگ سیکٹر زیڈ کے ایک بہت بڑے بنگلے میں جمع ہوتے ہیں ذیشان نے مزید لکھا کہ اس نے اور اس کے دوست طارق نے کئی مرتبہ وہاں چھپ کر دیکھا ہے. کئی مقامی لوگ بھی اس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر غیر ملکی ہیں ان کو پیسہ اسلحہ اور دھماکے کرنے کے لیے بم اور گاڑیاں اس بنگلے سے فراہم کی جاتی ہیں. ابو وہ ان کا ہیڈ کوارٹر ہے

آغا صاحب یہ پڑھ کر سکتے میں آگئے اور ذیشان کو سختی سے لکھا کہ ان کے باہر آنے تک وہ کسی سے اس کا ذکر نہیں کرے گا اور کسی صورت میں بھی وہاں دوبارہ نہیں جائے گا. ذیشان نے اپنے ابو کو یقین دلایا اور اٹھ کر آگیا.

شام کو وکیل صاحب نے ان سے ملنے ائے تو انہوں نے آتے ہی مبارکباد دی آغا صاحب مبارک ہو انسپیکٹر احمد کے خلاف میرے پاس کافی مواد جمع ہو گیا ہے. اور کئی واضح ثبوت اور گواہ موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسپیکٹر احمد تخریب کاروں سے ملا ہوا تھا انسپیکٹر احمد کے مرتے ہی وہ گواہ بھی مکرگیا ہے جو انسپیکٹر احمد نے آپ کے خلاف پیش کیا تھا کیونکہ اب اسے اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ بار بار یہی کہتا ہے کہ وہ لوگ مجھے جیل میں بھی مار ڈالیں گے. آغا صاحب کل صبح عدالتیں کھلتے ہی اپ کی ضمانت ہو جائے گی.

شام ہوتے ہی آغا صاحب کا دل گھبرانے لگا. وہ ذیشان کی طرف سے متفکرتھے. انہوں نے جیلر صاحب سے کہا کہ کسی طرح انسپیکٹر شعیب سے اس کی ملاقات کروا دو یا ٹیلی فون پر بات کرا دو. جیلر صاحب نے انسپیکٹر شعپکو فون کیا کہ اغا ساحب ملنا چاہتے ہیں. اور دوسرے ہی لمحے انسپیکٹر شعیب جیل میں آغا صاحب کی کوٹھری میں تھا. میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں لڑکے آغا صاحب نے کہا کہ میں ذیشان کی طرف سے پریشان ہوں تخریب کار کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں تم جانتے ہو کہ وہ لوگ اسے پہلے بھی اغوا کر چکے ہیں اور اس کے جسم کے اندر ٹرانسمیٹر موجود ہے اور اس کے گلے میں ہم نے ایک لاکٹ بھی ڈالا تھا. میں چاہتا ہوں کہ لاکٹ کے سگنل ریسیور کو باقاعدہ واچ کیا جائے تاکہ خبر رہے کہ ذیشان کہاں ہے اور کیا وہ خطرے میں تو نہیں اور خطرہ ہونے کی صورت میں پولیس اس کی امداد کو پہنچ سکے.
رائٹ سر انسپیکٹر شعیب نے آغا صاحب کو سلوٹ کیا اور اٹھ کر چلا گیا.

ابھی 15 منٹ گزرے ہوں گے کہ انسپیکٹر شعیب کا فون آیا کہ وہ آغا صاحب سے بات کرنا چاہتا ہے.
ہیلو میں آغاعمران بول رہا ہوں
سر معذرت کے ساتھ ایک خبر ہے کہ…
ہاں ہاں بولو کیا ہے جلدی بتاو لڑکے
سر مجھے کہا گیا ہے کہ میں ذیشان اور طارق کو گرفتار کر لوں

تو پھر تم نے کیا سوچا ہے؟ آغا صاحب نے انسپیکٹر شعیب سے پوچھا
سر انسپیکٹر شعیب نے ادب سے کہا میں یہ کیسے کر سکتا ہوں. میں نے سوچا کہ آپ سے بات کر لوں.
دیکھو بات سنو لڑکے آغا صاحب نے انسپیکٹر شعیب سے پیار سے کہا. یہ زیادہ مناسب ہے کہ تم ان دونوں کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو. مجھے امید ہے کہ صبح میری ضمانت ہو جائے گی ابھی وکیل صاحب نے مجھے تفصیل بھی بتائی ہے اور پھر ذیشان کی طرف سے مجھے جو پریشانی ہے وہ بھی دور ہو جائے گی. ذیشان اور طارق کو گرفتار ہونا بہت ضروری ہے. بس تم یہ کرنا کہ میری بیگم اور طارق کے گھر والوں سے کہنا کہ ان دونوں کو میں نے اپنے پاس بلوایا ہے. باہر ان کی جانوں کو خطرہ ہے. رائٹ سر شعیب نے کہا اور آغا صاحب نے شاباش لڑکے کہہ کر فون رکھ دیا.

چند ہی لمحوں بعد انسپیکٹر شعیب کا پھر فون آگیا کہ ذیشان اور طارق دونوں گھر پر موجود نہیں ہیں اور گھر والوں کو بھی ان کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے. وہ کہیں چپکے سے نکل گئے ہیں اور گھر والے خود نہایت پریشان ہیں کہ معلوم نہیں وہ کہاں چلے گئے ہیں. انسپیکٹر شعیب نے ایک ہی سانس میں ساری معلومات فراہم کر دیں.
لڑکے آغا صاحب نے انسپیکٹر شعیب کو جلدی سے کہا چیک کرو کہ ذیشان کہاں ہے؟
سر میں نے آتے ہی چیک کیا تھا وہ سیکٹر زیڈ میں کہیں جگہ موجود ہے. میں اس کی تلاش میں جانے والا تھا کہ میں نے سوچا آپ کو اطلاع کر دوں.
دیکھو لڑکے آغا صاحب نے رازدانہ لہجے میں کہا. میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو تمہیں ٹیلی فون پر نہیں بتا سکتا. فورا میرے پاس چلے آؤ .
تھوڑی ہی دیر میں انسپیکٹر شعیب آغا صاحب کے پاس موجود تھا.

آغا صاحب نے اسے پوری تفصیل بتا دی کہ سیکٹر زیڈ کے کسی مکان میں ذیشان کے بقول تخریب کاروں کا اڈا ہے. جہاں بھاری تعداد میں کرنسی نوٹ اسلحہ آتشی
مادہ اور بم وغیرہ موجود ہیں اور پورے ملک کے دھماکوں کا سرچشمہ وہی ہے. اور میرا خیال ہے کہ ذیشان اور اس کا دوست اسی بنگلے کے ارد گرد کہیں موجود ہوں گے. میں نے انہیں منع کیا تھا لیکن وہ سمجھتا ہے کہ پولیس یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتی اور پولیس کے اندر کئی ایک انسپیکٹر احمد موجود ہیں. اس لیے مجھے فکر ہے کہ وہ کسی خطرے میں نہ پھنس جائے. اس لیے فوری طور پر سیکٹر زیڈ کا محاصرہ کر لو اور سگنل کی مدد سے ذیشان کی تلاش کرو. کوشش کرنا جھڑپ نہ ہو اور ارد گرد کے مکانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے.