ذیشان: بچوں کا ناول قسط 14 اظہر نیاز

ذیشان کی امی کو تو کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور وہ صرف روئے جا رہی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آغا صاحب یہ کام کریں. وہ اپنی جان دے دیتے لیکن ملک سے غداری کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے. یہ کیسے ممکن ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا. لیکن ذیشان ساری صورتحال سمجھ گیا تھا اس نے اپنی امی سے اجازت لی اور آغا صاحب سے ملنے کے لیے جیل چلا گیا جیل کے تقریبا تمام حکام آغا صاحب کی شخصیت اور خدمات کے معترف تھے اور اکثر تو ان کے شاگرد تھے. ذیشان نے اپنا تعارف کرایا تو فورا ہی اسےآغا صاحب کی کوٹھری میں پہنچا دیا گیا. آغا صاحب جیل کی ایک صاف ستھری کوٹھری میں موجود تھے لیکن نہایت پریشان تھے. ان کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں جیسے کئی راتوں سے جاگ رہے ہوں.

ذیشان نے پہلے ادھر ادھر کی باتیں کی کہ امی بہت پریشان ہیں یہ کیسے ہوا وغیرہ وغیرہ اور بعد میں کاغذ قلم نکال کر ساری تفصیل سےآغا صاحب کو آگاہ کر دیا کہ جو کچھ ہوا ہے اس کی وجہ سے ہوا ہے اور اسے سخت شرمندگی ہے .

آغا صاحب نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں تم گھر جا کر آرام کرو تم نے جو فائل دہشت گردوں کو دی ہے اس کا توپولیس والوں کو پتہ بھی نہیں ہے.مجھے تو کسی اور چکر میں پھنسایا گیا ہے. تم گھر جا کر اپنی امی کو تسلی دو اور گھر سے باہر نہ نکلو میں نے وکیل صاحب سے بات کر لی ہے شام تک ضمانت پر گھر پہنچ جاؤں گا.
جاتے وقت آغا صاحب نے پھر ذیشان سے کہا کہ تم کسی صورت میں بھی گھر سے باہر مت نکلو. میں سب صورتحال سنبھال لوں گا. اتنے میں آغا صاحب کے وکیل صاحب بھی پہنچ گئے اور آغا صاحب نے ذیشان کو اشارہ کیا کہ وہ جائے اوروہ وہاں سے اٹھ گیا.

وکیل صاحب نے آغا صاحب سے کہا کہ آپ مجھے اصل صورتحال حرف بحرف بتائیں تاکہ میں اسی طرح سے کیس تیار کر سکوں تو آغا صاحب نے کہا کہ اس وقت اصل معاملہ یہ ہے کہ مجھے پتہ چلا کہ انسپیکٹر احمد تخریب کاروں سے ملا ہوا ہے یا کسی مجبوری کے تحت ان کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے اور اس سے پہلے کہ انسپیکٹر احمد جیل میں ہوتا انسپیکٹر احمد کو بھی پتہ چل گیا کہ اس کا راز فاش ہو چکا ہے. اس نے تخریب کاروں سے مل کر میرے خلاف سازش تیار کی تھی اور ایک جعلی فائل کی فوٹو کاپی کے ساتھ ایک گواہ بنا لیا کہ ایک مقابلے کے دوران ایک بنگلے سے یہ فائل اور یہ تخریب کار ملا ہے اور اس نے میرے خلاف گواہی دے دی کہ یہ فائل میں نے اس کے حوالے کی تھی.

اس طرح اس وقت جب ایوان صدر میں میٹنگ ہو رہی تھی مجھے میٹنگ سے اٹھا دیا گیا اور ایوان صدر سے باہر نکلتے ہی مجھے گرفتار کر لیا گیا. فائل کی فوٹو سٹیٹ میں نے دیکھی ہے اس پر میرے دستخط موجود ہیں جو میرے نقلی دستخط ہیں
وہ اس فائل کی فوٹو سٹیٹ نہیں ہے جو میرے گھر میں موجود ہے. کیونکہ اس پر میرے کچھ نوٹ لکھے ہوئے تھے اور چند جگہوں پر میں نے لائنیں لگا رکھی تھی. انسپیکٹر احمد دراصل اس کمیٹی میں شامل تھے جو گرینڈ پلان طے کر رہی تھی اور انہوں نے فائینل فائل میرے حوالے کرنے سے پہلے اس کی فوٹو سٹیٹ اپنے پاس رکھ لی اور پھر اس پر ادھر ادھر لائنیں لگا کر اور میرے دستخط کر کے میری فائل کی فوٹو سٹیٹ ظاہر کر دی.

پھر تو یہ بہت ہی آسان کیس ہو گیا اگر آپ کے گھر کی فائل عدالت میں پیش کر دی جائے تو مسئلہ صاف ہو جائے گا اورآغا صاحب سوچ رہے تھے کہ اب یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں رہا کیونکہ میرے برخوردار نے اس فائل کی فوٹوکاپی بھی ان کے حوالے کر دی ہے. تھوڑی بہت گنجائش جو موجود ہے وہ صرف یہ ہے کہ ابھی تک انسپیکٹر احمد کو اصل فائل کی کاپی کے معاملہ کاپتہ نہیں چلا.

وکیل صاحب نےآغا صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بات ہی معمولی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ میں آپ کے گھر جو فائل ہے اس کی فوٹو سٹیٹ حاصل کر سکوں.
آغا صاحب نے کہا کہ ہاں آپ میرے گھر چلے جائیں. ذیشان کو اس فائل کا پتہ ہے اس سے لے کر اپ فوٹو سٹیٹ کرا لیں.
رائٹ سر وکیل صاحب نے آغا صاحب سے ہاتھ ملایا.
آپ کی ضمانت کی میں جلد کوشش کروں گا شاید آج ہی .

وکیل صاحب آغا صاحب سے مل کر سیدھے ان کے گھر پہنچے. ذیشان گھر پر موجود تھا وکیل صاحب نے اپنا تعارف کرایا .
جی میں نے آپ کو ابو کے پاس دیکھا تھا. ذیشان پہچانتے ہوئےبولا.
اپ کے ابو نے کہا ہے کہ فائل کی فوٹو سٹیٹ مجھے دے دیں تاکہ میں ان کا کیس لڑ سکوں اور ضمانت کا بندوبست بھی کیا جا سکے. وہ کہہ رہے تھے کہ ذیشان کو اس فائل کا پتہ ہے.

ہاں مجھے پتہ ہے ذیشان نے وکیل صاحب کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا میں وہ فائل اپ کو ابھی دے دیتا ہوں ذیشان نے فورا چابیاں نکالی اور دراز کھولا لیکن فائل وہاں موجود نہ تھی ذیشان ہکا بکا رہ گیا اس نے فائل یہاں تو رکھی تھی.

اتنے میں ذیشان کی امی آغا صاحب کے کمرے میں داخل ہوئیں. وکیل صاحب نے اٹھ کر سلام کیا.
میں آغا صاحب کا وکیل ہوں اور ایک فائل لینے کے لیےآیا ہوں
کیا؟ بیگم صاحبہ نے حیران ہو کر کہا
آپ سے پہلے ایک اور وکیل صاحب آئے تھے ان کے ساتھ کوئی انسپیکٹر صاحب بھی تھے کہ وہ آغا صاحب کے وکیل ہیں اور انہوں نے کوئی ضروری فائل درکار ہے وہ اس دراز سے ایک فائل نکال کر لے گئے ہیں .