ذیشان: بچوں کا ناول قسط 15 اظہر نیاز

بموں کے دھماکوں سے پورا ملک دہل رہا تھا. کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے. تخریب کار عناصر جلاؤ گراؤ اور تھوڑ پھوڑ میں مصروف تھے. لوٹ کھسوٹ ہو رہی تھی. بدمنی اور انتشار نے پورے ملک کو گھیر رکھا تھا. حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود صورتحال قابو میں نہیں آرہی تھی. روزانہ اعلی سطح کی اجلاس ہوتے لیکن ان کے نتائج سامنے نہ آتے کیونکہ عوام تخریب کاروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے. تخریب کار ایک طرف دھماکے کرتے اور دوسری طرف لوگوں کی دکانیں بند کروا تے اور توڑ پھوڑ پر اکساتے. اس طرح پولیس کی توجہ ہٹ جاتی. اس کی ساری طاقت ملک کا نظم ونسک سنبھالنے میں صرف ہو جاتی اور تخریب کاروں کے تعاقب سے ہٹ کر عوام کو سنبھالنے میں لگ جاتی.

آغا صاحب کی ابھی تک ضمانت نہیں ہوئی تھی. ایک دن ذیشان ان سے ملنے کے لیےگیا تو ان کے ہاتھ میں تازہ اخبار تھا . اس نےپہنچتے ہی اخبار آغا صاحب کے آگے رکھ دیا. ابو یہ دیکھیے وہ خبر جس کا مجھے انتظار تھا. تخریب کار پکڑے گئے. پشاور کراچی اور بلوچستان میں دھماکوں کے ملزم پکڑے گئے. ایک خاص ملک کا ہاتھ کار فرما ہے. بھارت کے ملوث ہونے کا بھی امکان ہے. ابو یہ لاہور کی خبر ہے اور وفاقی وزیر قانون اور پارلیمانی امور نے کہا ہے کہ پشاور کراچی اور بلوچستان کے دھماکوں کے ملزم پکڑے گئے ہیں اور ان مجرموں کے طریقہ واردات میں مواد اور مشاہدوں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں تخریب کاروں میں ایک بیرونی ملک کا ہاتھ ہے. انہوں نے کہا کہ تخریب کاری میں بھارت کے ملوث ہونے کا امکان ہے لیکن اس کا ثبوت نہیں ملا انہوں نے کہا کہ جو غیر ملکی افراد ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ان کو ملک بدر کر دیا جائے گا
ابو اب میرے خیال میں کافی امن ہو جائے گا.

بیٹے ایسی خبریں اخبارات میں ائے دن آتی رہتی ہیں اور اس طرح کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں. آغا صاحب نے بڑے اداس لجے میں کہا. تو اس کا مطلب ہے کہ خبر جھوٹی ہے. ذیشان نے پوچھا
میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خبر جھوٹی ہے یا سچی ہے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر طفل تسلی ہے. اس سے میرا بیٹا ذیشان تو خوش ہو سکتا ہے لیکن میں نہیں. جس دن ملک میں امن ہو جائے گا کوئی دھماکہ نہیں ہوگا. قتل و غارت نہیں ہوگی. اس دن ایسی خبر دینے کی ضرورت ہی نہیں ائے گی. لوگ خود سمجھ جائیں گے کہ تخریب کاروں کلا کما کر دیا گیا ہے.

ابھی آغا صاحب اور ذیشان میں گفتگو جاری تھی کہ جیلر صاحب وہاں آگئے

انہوں نے آتے ہی پہلے تو ذیشان کو وہاں سے گھر جانے کے لیے کہا پھر انہوں نے آغا صاحب کو یہ خبر سنائی کہ انسپیکٹر احمد کو کسی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے. وہ ڈیوٹی سے واپس اپنے گھر جا رہے تھے جوں ہی ان کی جیپ اپنی گلی میں مڑی ان پر رائفل سے حملہ کر دیا گیا اور وہ موقعہ پرہی ہلاک ہو گئے. ان کی جیب سے ایک خط ملا ہے جو کسی بچے کا لکھا ہوا لگتا ہے. اس پر لکھا ہے کہ ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ تم تخریب کاروں سے ملے ہوئےہو.
اب اپنی خیر مناو.