ذیشان: بچوں کا ناول قسط 13 اظہر نیاز

ٹیلی ویژن خبروں میں بموں کے دھماکے کی خبریں ایک مرتبہ پھر اہم جگہ حاصل کر رہی تھیں .آدھے سے زیادہ خبرنامہ بموں کے دھماکوں چیخ و پکار لاشوں اور خون خرابے سے بھرا ہوا تھا. فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہو گئی تھیں. ملبے کے نیچے سے انسانی اعضا الگ الگ نکالے جا رہے تھے. بموں کی شل لگنے سے انسان سکرین پر لگے ہوئے تھے. ذیشان کو محسوس ہو رہا تھا کہ سارا ٹیلی ویژن انسانی خون سے نہا گیا ہے اور ابھی خون ٹیلی ویژن سیٹ سے باہر کارپٹ پر گرنے لگے گا. ذیشان کے ابو ابھی تک گھر نہیں آئے تھے اس نے کئی بار سوچا کہ ابو کو ٹیلی فون کر دوں لیکن اس کے بولنے پر پابندی تھی وہ انتظار کرنے لگا آج معلوم نہیں آغا صاحب کیوں دیر کر رہے تھے.
آخر آغا صاحب کے دفتر سے فون آ گیا. آغا صاحب دھماکے کی وجہ سے آج گھر نہیں آئیں گے. وہ موقع واردات پر ہیں اور اس کے بعد ایک اہم میٹنگ کے لیے جائیں گے. ذیشان کو جلدی تھی کہ کسی طرح وہ جلد از جلد آغا صاحب کو فائل کے بارے میں بتا دے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فائل کے پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے کوئی ایکشن لیں اور وہ خود کسی مصیبت کا شکار ہو جائیں.

ذیشان ساری رات اسی پریشانی کے عالم میں سو نہ سکا صبح جا کر کہیں اس کی آنکھ لگی. ذیشان کی امی نے جب صبح کی نماز کے وقت اٹھایا تو اس نے سب سے پہلے یہی سوال کیا کہ کیا ابو اگئے لیکن اس کی امی کا جواب نفی میں تھا. ذیشان نے نماز پڑھی اور اپنے ابو کے لیے اللہ تعالی سے دعا مانگی. یا اللہ تو سب کچھ جانتا ہے. تو یہ بھی جانتا ہے کہ مجھے اپنے ملک سے کتنی محبت ہے. میں نے جو کچھ کیا ملک دشمنی میں نہیں کیا میں نے تو یہ سوچا کہ اگر ابو مارے گئے تو تخریب کار کامیاب ہو جائیں گے اور ابو زندہ رہے تو وہ ضرور ملک دشمنوں کو سزا دیں گے. یا اللہ تو ان تخریب کاروں کو ناکام کر دے یا اللہ تو میرے ملک کو بچا لے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ سجدے میں گرا ہوا تھا .

سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ٹیلیفون پر ذیشان کے گھر میں اطلاع ملی کہ آغا صاحب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے. کیونکہ ایک بہت اہم فائل کی فوٹو سٹیٹ انہوں نے ملک دشمن عناصر کے حوالے کر دی تھی.