ذیشان: بچوں کا ناول قسط 12 اظہر نیاز

ذیشان نے آغا صاحب کے کمرے میں فائل تلاش کرنا شروع کر دی لیکن اس سے فائل نہیں مل رہی تھی. شاید اس کے ابو ساتھ لے گئے تھے. فائل کی تلاش کے دوران ایک دراز میں سے چند چابیاں ملیں. ذیشان نے چابیوں کی مدد سے دوسرے دراز اور الماری کھول کر فائل کی تلاش شروع کر دی. اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے کیونکہ آغا صاحب نے آج کل گھر کے ملازمین میں بھی خفیہ کےآدمی شامل کر دیے تھے اور پھر یہ بھی ڈر تھا کہ امی اس کی تلاش میں یہاں نہ آ جائیں. حالانکہ وہ دیکھ کر آیا تھا کہ اس کی امی کچن میں مصروف تھیں اور باورچی کو رات کے کھانے کے بارے میں کچھ ہدایات دے رہی تھیں. ذیشان بہت جلدی میں فائل تلاش کر رہا تھا اور بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا
کہ کوئی آ تو نہیں رہا. ذیشان نے ایک دراز کھولی تو اس میں صرف ایک ہی فائل موجود تھی اور وہ وہی ذیشان کی مطلوبہ فائل تھی. ذیشان نے دروازے کی طرف دیکھا اور جلدی سے فائل نکال تمام دراز الماریوں کے دروازے اسی طرح بند کر دیے اور اپنے کمرے میں چلا گیا.

اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح گھر کے لوگوں کو چکر دے کر فوٹو سٹیٹ مشین تک پہنچ جائے. آخر اسے موقع مل گیا اور وہ فائل چھپا کر گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا. اس کے گھر کے قریب ترین جہاں فوٹو سٹیٹ مشین تھی وہ جنرل سٹور تھا. اس نے فوٹو سٹیٹ مشین پر پہنچ کر فائل کے ہر صفحے کی ایک ایک نقل بنانے کے لیے کہا. ابھی پہلے صفحے کی نقل ہی بنی تھی کہ بلیک مین خوشبو جنرل سٹور میں داخل ہو گئی یہ وہی شخص تھا گورا چٹا بلی آنکھیں سنہرے بال ، کانٹوں کی طرح مونچھیں، سفید ریچھ جیسا جسہ .غیر ملکی لیکن پاکستانی لباس میں. آتے ہی ذیشان کے ساتھ فری ہو گیا.
ہاں تو بیٹے فوٹو سٹیٹ ہو گئی اور پھر دکاندار سے کہنے لگا ذرا جلدی. اسے اردو بولنے میں دقت ہو رہی تھی لیکن وہ کافی ٹھیک اردو بول رہا تھا. وہ تمام نقول خود اٹھا رہا تھا اور اصل ذیشان کو دیے جا رہا تھا بلکہ اشارہ کر دیتا کہ اصل ذیشان اٹھا لے. وہ اصل کاغذات کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا. جب فائل مکمل طور پر فوٹو سٹیٹ ہو گئی تو بل اس نے خود ادا کیا اور ذیشان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے باہر لے آیا
.سخت گھبراہٹ کے باوجود ذیشان نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا ہوا تھا اور آج وہ کسی قیمت پر بھی اس کے ساتھ جانے کو تیار نہ تھا اور اس نے پکا تہیہ کر لیا تھا کہ وہ لاکٹ کا بٹن دبا دے گا.
بلیک مین خوشبو والے ریچھ نے باہر جا کر ذیشان کے کندھے سے ہاتھ اٹھا لیا.
اور ذیشان سے بے پرواہ اپنے جیپ میں جا کر بیٹھ گیا جس کے اندر دو تین اور افغانی شکل کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے.
ذیشان نے اپنی سائیکل سنبھال لی اور گھر کی طرف چلنے لگا. چپکے سے آ کر اس نے فائل اپنی جگہ پر رکھ دی اور اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا.
اس نے کیا کیا؟ اچھا کیا یا بہت برا؟
ذیشان سوچ رہا تھا کہ آج جب ابو آئیں گے تووہ انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کر دے گا کہ یہ غلطی میں کر چکا ہوں کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا. اب وہ جو کرنا چاہیں کر لیں تاکہ جلد از جلد ایسے اقدامات کیے جا سکیں کہ تخریب کار اس گرینڈ پلان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں.

ذیشان نے اپنے دوست کے گھر جانے کا بہانہ کیا اور طارق کو لے کر دونوں سائیکل پر سیر کو نکل گئے. ذیشان نے ابھی تک طارق کو کچھ نہیں بتایا تھا اور اس وقت تک بھی وہ سیکٹر زیڈ میں گھوم رہا تھا. اس کا خیال تھا کہ تخریب کاروں کا خفیہ ہیڈ کوارٹر اسی علاقے میں ہے. اس سے پہلے بھی وہ کبھی اکیلا اور کبھی طارق کے ساتھ اس سیکٹر میں گھومتا رہتا تھا.

جب اسے اغوا کیا گیا تھا تواس نے چند ایک ایسی نشانیاں ذہن نشین کر لی تھیں جو اس علاقے میں پائی جاتی تھی. وہ ابھی تک اپنے شک کو یقین میں بدلنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا.

ذیشان اچانک ایک سٹریٹ کے سامنے رک گیا اور طارق کو واپس مڑنے کا اشارہ کیا. یہی سٹریٹ تھی اور اس سٹریٹ کے ایک بڑے سے گھر کے اندر کئی گاڑیوں کے ساتھ بلیک مین خوشبو کی سرخ جیپ کھڑی تھی ذیشان جیپ کو دیکھ کر اتنا گھبرایا کہ اس کا نمبر بھی دیکھنا بھول گیا اور فورا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اسے اس بات کی خوشی تھی کہ وہ تخریب کاروں کی خفیہ اڈے کا پتہ چلانے میں کامیاب ہو گیا تھا.