ذیشان: بچوں کا ناول قسط 11 اظہر نیاز

پورے ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا. دھماکے ہو رہے تھے. انسانی لاشوں کے ٹکڑے بازاروں میں بکھرے ہوئے تھے. بھائی بھائی کو قتل کر رہا تھا. بینک لوٹے جا رہے تھے اور اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ تخریب کار دن دہاڑے بندوقیں ہاتھوں میں لیے دفاتر میں گھس جاتے. نہتے شہریوں کو مارتے اور ان سے جتنی رقم ہاتھ لگتی لے اڑتے. جاتے وقت دھمکی دے جاتے کہ اگر پولیس میں رپورٹ لکھوائی تو آئندہ گھر کے کسی فرد کو نہیں چھوڑیں گے. لوگ ڈر کے مارے پولیس رپورٹ نہیں لکھواتے تھے اور اس طرح حکومت کے علم میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ پورے ملک میں روز کتنی وارداتیں ہو رہی ہیں.
کتنے گھروں کا سکون برباد ہوتا ہے. تخریب کاروں کا واحد مقصد یہ تھا کہ ملک کے تمام صوبوں کو آپس میں متنفر کر دیں. سندھی پنجابی بلوچی پٹھان مہاجر کشمیری سب کو آپس میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کر دیں. خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے اور پھر ایسی فضا بنا کر باہر سے حملہ کروا دیں. کئی دہشت گرد تنظیمیں براہ راست اس میں ملوث تھی اور دشمن ملک اس کی پشت پناہی کر رہے تھے.
اعلی سطح پر صورتحال کا آخری حل تلاش کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں. فوری طور پر حکم نافذ کیا گیا تھا کہ تمام غیر قانونی اسلحہ جس کے پاس بھی پایا جائے اسے سخت سزا دی جائے.

اج جمعہ کا دن تھا ذیشان نے پہلے تو اپنے ابو کے ساتھ شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی اور پھر ان سے اجازت لے کر اپنے دوست طارق کے گھر رک گیا اور اس کے ساتھ مل کر ویڈیو گیم کھیلنے لگا. وہ طارق سے تخریب کاروں کے متعلق ہی گفتگو کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یار طارق ایک ایسی ویڈیوگیم بھی ہونی چاہیے جس میں پولیس اور تخریب کاروں کا مقابلہ ہو اور تم دیکھو کہ میں سب سے زیادہ سکور کروں. ایک تخریب کار کو بھی زندہ نہ چھوڑوں.

ابھی تخریب کاروں کا خاتمہ جاری تھا کہ طارق کے ملازم نے آ کر بتایا کہ ذیشان کا ٹیلی فون ہے. ذیشان نے سمجھا کہ شاید ابو یا امی ہوں گے. میرے خیال یہ میری امی خیریت معلوم کرنا چاہتی ہوں گی. لیکن وہ کوئی اور تھا. آپ کون ہیں؟
ذیشان نے پوچھا
میں، مجھےتم ایک خطرہ سمجھو جو تمہارے گھر کے گرد منڈلا رہا ہے
تم نے مجھے فون کیوں کیا ہے ذیشان نے پوچھا
اس لیے کہ تمہارے ابو کی جان خطرے میں ہے
کیا مطلب ذیشان پریشان ہو گیا،
مطلب یہ ہے کہ ہم جس وقت چاہیں تمہارے ابو کو ایک ہی بم کے دھماکے سے اڑا سکتے ہیں. ان کے جسم کا ایک بھی ٹکڑا تم نہ دیکھ سکو گے. اگر تم اپنے ابو کی جان چاہتے ہو تو ہمارا ایک کام کر دو.
ذیشان سخت پریشان تھا کیا کام ہے اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے اور سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا تھا.
معمولی کام ہے تمہارے لیے تو بہت ہی معمولی کام ہے تمہارے ابو کے کمرے میں ایک فائل موجود ہے جس میں تخریب کاروں کی سرکوبی کے لیے گرینڈ پلان ہے. اس فائل کی ایک فوٹو سٹیٹ ہمیں پہنچا دو.
نہیں یہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا ذیشان چلایا میں تخریب کاروں کے لیے کام نہیں کر سکتا
آہستہ بولو دوسری طرف سےآوازآئی. کوئی تمہاری آواز سن بھی سکتا ہے.
ذیشان نے ادھر ادھر گھبرا کر دیکھا. اگر تم ہمارے لیے کام نہیں کر سکتے تو پھر ٹھیک ہے.اپنے ابو کی موت کے لیے تو کام کر سکتے ہو. میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں کل شام تک وہ فائل چرا کر اپنے گھر کے قریب جو فوٹو سٹیٹ مشین ہے وہاں پہنچ جاؤ. ورنہ کل شام کو تمہارے ابو کی لاش تمہارے گھر پہنچ جائے گی.
اور اس سے پہلے کہ ذیشان کچھ اور کہتا دوسری طرف سے ٹیلی فون بند کردیا گیا. زیشان سخت الجھن میں پھنس گیا تھا. وہ ٹیلی فون رکھ کر واپس طارق کے پاس آگیا.
کس کا فون تھا؟ طارق نے پوچھا
وہ ابو کا تھا ذیشان نے گھبرا کر جواب دیا. کہہ رہے تھے کہ گھر جلدی آ جانا. وہ طارق سے اب کوئی بات نہیں کر سکتا تھا. طارق کے گھر سے اٹھ کر وہ اپنے گھر آگیا اور بستر پر لیٹ کر سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے.
آخر اس نے فائل چرانے کا فیصلہ کر لیا.