تیری مرضی یار: تحریر اظہر نیاز

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی تھا جو ایک شہر میں رہتا تھا.وہ اکیلا آدمی تھا – نہ کوئی بہن نہ بھائی نہ ماں نہ باپ. اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کون ہے اس کا کوئی گھر بھی نہیں تھا .جو مل جاتا کھا لیتا جہاں رات ہو جاتی سو جاتا.ایک دن اسے پولیس پکڑ کر لے گئی اور جیل میں بند کر دیا.جب جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا ہے. کیا قصور ہےتمہارا؟وہ خاموش پولیس کی طرف دیکھنے لگا کہ بھائی بتاو میرا کیا قصور ہے.پولیس نے کہا کہ آوارہ گرد ہے.جج صاحب ہنسے اور اسے آزاد کرنے کا حکم دیا،جج صاحب نے پوچھا اب کہاں جاو گے تو اس نے جواب دیا وہاں جہاں غریب ہونا جرم نہ ہو.جج صاحب نے اسے پاس بلایا اور کچھ پیسے اس کی جیب میں ڈال دئے اور کہا جاو لیکن یاد رکھو ایسی کوئی جگہ نہیں ہے-
وہ ایک بس میں بیٹھ گیا اور کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا.بس کنڈیکٹر نے پوچھا کہاں جاو گے؟ تو وہ کافی دیر سوچتا رہا پھر کچھ پیسے کنڈیکتر کی طرف بڑھائے اور کہا کہیں اتار دینا. بس کنڈیکٹر سوچنے لگا کہ “کہیں” نام کا تو کوئی گاوں اس رستے پر نہیں آتا.
وہ آدمی باہر دیکھ رہا تھا ،ندی نالے باغ کھیت .یکدم وہ چیخا ہاں مجھے یہیں اتاردو،
یہیں
اپ نے تو کہیں جانا تھا
وہ آدمی سنی نہ سنی کر کے نیچے اتر گیا
ایک پگڈندی پر چلتا رہا پھر اس نے دیکھا کہ ایک کسان بیٹھا روٹی کھا رہا ہے .وہ اس کے پاس سے گزرنے لگا تو کسان نے پوچھا .بھائی کہاں جا رہے ہو
آدمی نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم
بیٹھو کھانا کھاو کسان نے اسے پاس بٹھا لیا
حال چال کے بعد کہنے لگا تم میرے پاس ہی رک جاو ،میرا کام کر دیا کرنا میں تمہیں روٹی دے دیا کروں گا.
آدمی نے پوچھا کام کے بغیر روٹی نہیں مل سکتی.
کام کے بغیر تو روٹی صرف اللہ دے سکتا ہے بندہ نہیں- کسان نے سرد لہجے میں کہا.
آدمی اٹھ کھڑا ہوا
خیریت ؟ کسان نے پوچھا
میں تمہیں کسان سمجھا تم تو سوداگر نکلے
چلتے چلتے اسے درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا .وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور بیٹھتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی.
دوپہر شام میں ڈھل گئی شام رات میں بدل گئی .اس چھوٹے سے جنگل میں صبح ایک نئی شان سے طلوع ہوئی-اسے لگا جیسے وہ اپنے گھر میں ہے.درخت پرندے تتلیاں سب اس کا خاندان ہیں.
اتنے میں ایک بچہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگتا ہوا آیا اور ٹھوکر کھا کر گر گیا .آدمی جلدی سے اٹھا اور بچے کو اٹھا لیا اور اس کے کپڑوں اور ہاتھوں پہ لگی مٹی صاف کرنے لگا .کیا دیکھتا ہے کہ وہی سوداگر کسان ہاتھ میں کلہاڑی پکڑے بھاگتا آرہا ہے -پھر اس نے چیخ چیخ کر سارا گاوں جمع کر لیا .
مارو پکڑو جانے نہ پائے -یہ بچوں کو اغوا کرنے والا ہے.
ایک پاگل ہجوم کے درمیان گھرے آدمی نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا:
تیری مرضی یار