ذیشان: بچوں کا ناول قسط 17 اظہر نیاز

اندھیرا پھیل چکا تھا طارق اور ذیشان تخریب کاروں کے ہیڈ کوارٹر کے گرد گھوم رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ آج اس بنگلے میں ضرورت سے زیادہ ہی آمد و رفت ہے. گاڑیاں آرہی تھیں. ہر گاڑی کی آمد پر دروازہ کھلتا .بہت احتیاط سے گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے شخص کو چیک کیا جاتا اور گاڑی اندر چلی جاتی اور دروازہ بند ہو جاتا.
کوئی بھی گیٹ سے باہر نہ تھا کوئی بھی گاڑی گیٹ سے باہر نہ تھی اتنی گاڑیاں اندر جا چکی تھیں کہ ذیشان حیران تھا کہ اندر اتنی گاڑیاں کہاں کھڑی کی گئی ہوں گی. لگتا ہے آج کوئی اہم اجلاس ہے ملک کے تمام تخریب کار یہاں جمع ہیں. ذیشان نے طارق کی طرف دیکھا اور ایک کاغذ پر لکھ کر اسے کہا کہ میں تو اس بنگلے کے اندر جا رہا ہوں اگر کوئی پولیس والا آئے اور میرا پوچھے تو اسے اس بنگلے کا پتہ بتا دینا اور خود گھر چلے جانا .خطرے کی صورت میں میں لاکٹ کا یہ بٹن دبا دوں گا اور مجھے امید ہے کہ کوئی نہ کوئی میری مدد کو ضرور پہنچ جائے گا. اگر دیر ہو جائے اور کوئی نہ آئے تو تم اس ٹیلی فون پر انسپیکٹر شعیب کو سب کچھ بتا دینا.

طارق نے سب کچھ پڑھ کر ذیشان کو اشاروں میں منع کرنے کی کوشش کی لیکن ذیشان اندر جانے پر بضد تھا.
ذیشان اور طارق نے اپنے سائیکل پہلے ہی ایک جگہ چھپا دیے تھے دونوں بنگلے کی پچھلی طرف گئے اور دیوار پھلانگنے کا کوئی راستہ دیکھنے لگے. ذیشان نے دیکھا کہ دیوار پھلانگنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ گٹر پائپ اور پھر ایک درخت جو بنگلے کے اندر ہے پائپ کے ساتھ اوپر چڑھ کر اسے اس درخت کی ٹہنیاں پکڑ کر اندر کودنا پڑے گا.

ذیشان نے اپنی جیب میں ماچس کو چیک کیا اور پائپ کے ذریعے اوپر چڑھنا شروع کر دیا اسے جس دن سے اس بنگلے کا پتہ چلا تھا وہ ماچس جیب میں رکھنے لگا تھا اس کا خیال تھا کہ بس ماچس کی ایک تیلی سے وہ تمام تخریب کاروں کو آگ میں جھونک دے گا.

جب اس نے درخت کی ٹہنیوں کو پکڑ لیا تو طارق نے محسوس کیا کہ کوئی ان کی سمت آ رہا ہے. معلوم نہیں وہ کون تھا آہستہ آہستہ چلتا ہوا اور زمین پر گری چھوٹی موٹی چیزوں کو ٹھوکریں مارتا. سگریٹ کا کش لیتا اس کے پاس سے گزر گیا. طارق نے محسوس کیا کہ وہ ٹھوکریں مار نہیں رہا تھا بلکہ ٹھوکریں کھا رہا تھا کیونکہ وہ نشے میں تھا.

طارق نے اوپر دیکھا ذیشان سانس روک کے درختوں کی ٹہنیوں سے چپکا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ تنے کی طرف اتر رہا تھا. وہ کودنے کی بجائے آہستہ آہستہ سے اترنا چاہ رہا تھا کہ کودنے کے شور سے کسی کو پتہ نہ چل جائے.

جب ذیشان آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو طارق نے اپنی سائیکل نکالی اور بڑی سڑک پر سائیکل چلانے لگا ٹھنڈی ہوا کے باوجود اس کو پسینہ آیا ہوا تھا. اس سے سائیکل چلانی نہیں جا رہی تھی. وہ کبھی کھڑا ہو جاتا اور کبھی چین ٹھیک کرنے لگتا. وہ سوچ رہا تھا کہ جلد از جلد کوئی پولیس والا آ جائے تاکہ وہ اسے ذیشان کے بارے میں بتا دے.

انسپیکٹر شعیب کے جاتے ہی آغا عمران نے جیلر سے کہا کہ اگر وہ انہیں جیل سے جانےکی اجازت دے دے تو وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی جان پر کھیل کر بھی وقت پر واپس جیل پہنچ جائیں گے.
آغا صاحب جیلر نے کہا اپ میرے استاد ہیں لیکن اگر آپ میری جگہ ہوتے تو بتائیے آپ کا کیا جواب ہوتا؟
میرا جواب تو تمہیں معلوم ہے آغا عمران نے جواب دیا
تو آغا صاحب میرا جواب بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے
اس کے باوجود لڑکے میں تو جاؤں گا
اور میں جہاں تک ممکن ہو سکے گا روکنے کی کوشش کروں گا جیلر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا.
تمہیں معلوم ہے کہ آغا عمران نے کہا میرے بیٹے کی جان خطرے میں ہے.
اس کے باوجود آغا صاحب میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مار سکتا جیلر نے سپارٹ لیجے میں کہا
آغا صاحب نے دروازے کی طرف دیکھا اور ابھی باہر نکلنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ جیلر نے پستول نکال لیا
آغا صاحب آپ مجھے گولی چلانے پر مجبور نہ کریں

لڑکے! آغا صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا بات صرف میرے بیٹے کی نہیں ہے بلکہ اس وقت میرا بیٹا تخریب کاروں کے چنگل میں ہے. اگر تم میرے راستے میں رکاوٹ بنے تو تم تخریب کاروں کا ساتھ دو گے اور اگر میرے ساتھ چلو تو تخریب کاروں کے دشمنوں کا ساتھ دو گے. میرا کہنا مانو تم بھی میرے ساتھ چلو.
یہ تمہارے مستقبل کے لیے بہتر رہے گا.

آغا صاحب سوری مجھ پرآپ کی کسی بات کا اثر نہیں ہوگا. آپ خاموشی سے اپنی کوٹھری میں چلے جائیں. مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے آپ کو اپنے دفتر میں ٹیلی فون سننے کے لیے بلا لیا. آپ میری نوکری کا خیال کریں.
میں تمہاری نوکری کا خیال کروں یا ملک کا خیال کروں. آغا صاحب یکدم غصے میں آگئے. دوسرے ہی لمحے ان کی ٹانگ لگنے سے جیلر کا پستول فرش پر تھا اور آغا صاحب نے اٹھانے میں دیر نہیں کی. آغا نےجیلر کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اس کے دفتر میں پڑے کپڑے سے منہ بند کر دیا. دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ہتھکڑی لگا دی جو جیلر کی اپنی ہی میز پر پڑی تھی اور پھر وہ ہتھکڑی میز کے ساتھ باندھ دی.

جیلر نے اپنے لیے ایک سویلین جوڑا کپڑوں کا غالبا نماز کے لیے دفتر میں رکھا ہوا تھا آغا صاحب نے اپنے جیل کے کپڑے اتار کر وہیں پھینکے اور جیلر کے کپڑے پہن کر دفتر سے باہر نکل آئے.

دفتر کو باہر سے بند کر دیا . اندر ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی. آغا صاحب نے ادھر ادھر دیکھا کہ ایک طرف پولیس موٹر سائیکل کھڑی تھی. آغا صاحب نے موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور جیل سے باہر نکل گئے. گیٹ پر پولیس گارڈ نے آغا صاحب کو ضمانت کی مبارکباد دی اور ایک پولیس ڈرائیور نے تو یہ بھی کہا کہ وہ ان کو جیپ پر چھوڑ آتاہے.

.وہ تو کچھ دیر بعد ساری صورتحال سامنے آئی جب جیلر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور پولیس کے آدمیوں نے دروازہ کھولا.
اس کے بعد فورا آغا صاحب کا تعاقب شروع کیا گیا لیکن ان کا کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا.