مولا ہم دھوپ کے لائق ہیں اظہر نیاز

میرا کالم۔

کئی دنوں سے ایک کالم لکھنے کا سوچ رہا تھا اور اس کی وجہ تھی کہ میں ملک کی مجموعی صورتِ حال سے دل برداشتہ تھا۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ اجتمائی آبرو ریزی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کم اسن بچیوں کی آبرو ریزی کی جا رہی ہے۔ قتل کیا جا رہا ہے۔ ظلم اور نا انصافی نے ملک کو کسی تار عنکبوت کی طرح جکڑ لیا ہے اور اس کی تاریں مجھے سٹیل کا ایسا شکنجہ لگ رہا تھا جس سے مجھے اپنے گلا گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

azhar niaz

سڑکوں پر ہر آدمی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شارٹ کٹ اپناتے ہوئے راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ان خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ پولیس جسے محافظ کہا جا رہا تھا وہی عزت و آبرو کی قاتل بنتی جا رہی تھی۔ ملک ایک ایسی نہج پر پہنچ گیا تھا کہ میں سوچ رہا تھا کہ اس پر اگر میں لکھوں گا تو وہ میرا آخری کالم ہو گا۔ کیونکہ اس ملک میں دو تین ایسے ادارے ہیں جن کو قرآن کا درجہ حاصل ہے اور ان کے خلاف تو خیر بڑی بات ہے محض تنقید برائے اصلاح بھی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے میں نے نہیں کچھ نہیں لکھا اور میں صرف یہ لکھنا چاہتا تھا کہ ان اداروں کی خاموشی اور بے حسی اس ملک کو اس مقام پر لے آئی ہے کہ اب صرف عذاب ہی درد کا مداوا ہے۔ اور میں خاموش ہو کر بیٹھ گیا اور عذاب کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں بچ کیوں گیا۔
سنا ہے کہ ایک قوم پر عذاب آیا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ بستی کے سب گھر الٹا دو۔ تو فرشتوں نے پوچھا کہ باری تعالیٰ اس بستی میں ایک نیک آدمی ہے جو ہر وقت تیرے حضور میں سجدہ ریز رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے کہا سب سے پہلے اس کے حجرے کو زمین بوس کرو۔ کہ خدا کی مخلوق برائیوں میں مبتلا ہے اور وہ سجدے میں پڑا ہے۔ اسے اپنا کام کرنا چاہیے اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے منع کرے۔
آپ نے یہ بھی سنا ہو گا کہ اگر کوئی برائی دیکھے تو اسے طاقت سے روک دے۔ اگر طاقت سے روک نہ سکے تو اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ اگر وہ بھی نہ کر سکے تو دل میں اسے برا خیال کرے اوریہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
میں اور میری طرح کے بہت سارے افراد اس لیے بچ گئے کہ ہم ایمان کے سب سے کمزور درجے پر فائز تھے۔ میرے ہاتھ میں قلم تھا۔ میں نہیں لکھ سکا۔ میں ایک بزدل شخص ہوں۔ عذاب کا منتظر‘ عذاب آیا اور اس میں مرنے والے سب گنہگار نہیں تھے۔ نیک لوگ بھی تھے۔ ایسے بھی تھے جو ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ ان سب نے شہید ہو کر ہم سب کو سبق دینے کی کوشش کی۔میں پھر لکھنا چاہتا ہوں اور میں پھر نہیں لکھ پا رہا مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایک CDA کا ڈرافٹ مین اتنے بڑے پلازوں کا مالک کیسے بن گیا۔ 17 گریڈ کے افسران اتنے مہنگے پلازہ میں کیسے رہ رہے تھے۔ وہ پلازہ جو اسلام آباد میں Status Symbol بن گیاتھا ان میں رہنے والے کون لوگ تھے۔ اس کی بنیادوں میں کن کن غریب لوگوں کا لہو تھا۔ رشوت‘ کرپشن‘ اور بے انصافی کے میٹریل سے کتنی مضبوط دیواریں بنائی جا سکتی تھیں۔
ہو سکتا ہے آپ یہ کہیں کہ مارگلہ ٹاور تو چلو اس لیے گر گیا۔ کشمیر اور بالا کوٹ کے غریب عوام کے گھر کیوں گر گئے۔ ہاں‘ انہوں نے شہید ہونا تھا کہ ہماری آنکھیں کھول سکیں۔ ان لوگوں کی آنکھیں جو دیکھتی آنکھوں کے ساتھ بھی اندھے ہیں۔
ایک درویش اپنے مرید کے ساتھ جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص پڑا ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں نہ پاؤں۔ درویش نے اپنے حواری سے پوچھاکہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس کی زندگی کا کیا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا کیوں بنایا ہے۔ حواری نے کہا۔ اس لیے کہ ہم اس کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں ہیں۔ درویش نے کہا کہ تمہارا آدھا جواب درست ہے کیونکہ آنکھوں والوں کے لیے نہیں بلکہ اندھوں کے لیے عبرت ہے۔ ورنہ جنہیں نظر آتا ہے وہ اس کو دیکھے بغیر اپنے ہاتھ پاؤں دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔ اندھے جنہیں اپنے ہاتھ پاؤں نظر نہیں آتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ ایسی نشانیاں بناتا ہے تا کہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ ہم اندھے ہیں۔ ہم اپنے آسودہ گھروں کو دیکھ کر اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ دوسروں کے گھروں پر قبضہ کرنے کا سوچتے ہیں۔ہمیں اپنا مال و دولت نظر نہیں آتا۔ ہم دوسروں کی جائیدادیں ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے خوبصورت بچے نظر نہیں آتے ہم یتیموں کو دھتکارتے ہیں۔ ہمیں اپنی بیٹی نظر نہیں آتی ہم دوسروں کی بیٹیوں کی آبرو ریزی کرتے ہیں۔ ہمیں اپنا خود نظر نہیں آتا ہم دوسروں کی محنت اور پسینے کی کمائی پر ڈاکہ مارتے ہیں۔ ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم فرعون بنے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آسمان سے اوپر نکل جائیں اور زمین کو پھاڑ کر اس کے اندر گھس جائیں۔ ہم اپنی اپنی اناؤں میں بند اپنی اپنی دنیاؤں کے خدا‘ بے رحم‘ جابر‘ خونخوار بھوکے بھیڑیے ہیں جو سب کچھ کھا جانا چاہتے ہیں۔
ہم کو دکھایا جا رہا ہے کہ میں یہ بھی کر سکتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ ایک قوم کو ختم کر کے دوسری قوم کو لے آئے۔ کتنی قومیں جو ہم سے بھی زیادہ تہذیب یافتہ تھیں تباہ و برباد ہو گئیں۔
ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں تباہ و برباد نہیں کیا۔ ابھی صرف ایک جھٹکا دیاہے کہ ہم جاگ جائیں۔ اف میرے خدا‘ کہ ہم ابھی تک سوئے ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں اور وہ تباہ حال افراد کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ قومی یکجہتی کا عظیم مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لوگ اپنا جان و مال سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ہو کیا رہا ہے۔
ایک پاکستانی ہے جو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا پھیلا کر مدد مانگ رہا ہے پیسے اکٹھے کرتا ہے کہ مرنے والوں کے لیے کفن خرید سکے۔لیکن دوسرے پاکستانی نے کفن کا کپڑا ذخیرہ کر لیا ہے۔ وہ مہنگے داموں بیچنا چاہتا ہے۔ پینے کے پانی کی بوتلیں نایاب ہیں۔ اس لیے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے ذخیرہ کر لی ہیں۔ چھپا کر مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاء آٹا‘ گھی‘ چاول‘ دالیں‘ اور کمبل‘ بازار سے غائب ہو گئے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی زلزلے کے متاثرین کو ضرورت ہو سکتی ہے بازار سے غائب ہے اور مہنگے داموں مل رہی ہے۔
یہی نہیں ہمارے رویوں میں بھی فرق نہیں پڑا۔ سڑک پر اسی طرح ہم دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سرخ بتی پر اب بھی نہیں رکتے۔ صبر و تحمل مفقود ہے۔ شریف آدمیوں کو اسی طرح بے عزت کیا جا رہا ہے۔دفاتر میں اسی طرح فائلوں پر بے انصافی کی دھول پڑی ہے۔ زلزلہ بھی ان فائلوں کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکا۔
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد
ہم ایسے خود غرض لوگ ہیں جو دوسروں کے لیے تو کیا اپنے لیے بھی دعا نہیں کرتے۔ کہ یا اللہ ہمارے دل کو گداز کر دے۔ تیری دہشت سے بڑے بڑے پتھر گر کر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے دلوں میں جس پتھر نے گھر کر لیا ہے اس کو بھی آنسو بہانا سکھا دے۔ ہمارے دلوں سے نفرتیں نکال دے اور انہیں محبتوں سے بھر دے۔
اے میرے پروردگار تو ہی ہے جسے توفیق دے۔ ہم گنہگار کچھ نہیں کر سکتے۔ تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے شکرگزار اور بندے بن جائیں۔ یا اللہ تو ہمیں تو نہیں دے کہ ہم دوسروں پر احسان کرنے والے بن جائیں۔ یا اللہ ہم جو جانور بن گئے ہیں۔ انسان بنا دے یا اللہ اس عذاب کو ٹال دے۔ جو اجڑنے تھے اجڑگئے جو بچھڑنے تھے وہ بچھڑ گئے۔ یا اللہ اب بس کر۔ ہماری توبہ کو قبول فرما۔ ہمیں توبہ کی توفیق دے اور توبہ پر ثابت رہنے کی توفیق دے۔ یا اللہ ہماری مشکلات کو دور کر دے اور آسانیاں فراہم کر دے۔ یا اللہ ہم نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا تو معاف کرنے والا ہے۔ تو ہی رحم کرنے والا ہے۔ ہمیں سہارا دے ورنہ ہم بہت خسارے میں رہیں گے۔ تو ہی ہمیں دعا سکھاتاہے۔ دل سے زبان تک لانے کی طاقت دیتا ہے اور تو ہی ہماری دعا کو قبول کرتا ہے۔
تاروں سے عرش سجا مولا
پر نیند کو نیچے لا مولا
مرے پاگل پن کو دور نہ کر
کب ہوش میں نام لیا مولا
شاخوں سے پھول نکل آئے
مت بھیج عذاب ہوا مولا