’انصاری ‘انتظار کرنا میرا کالم۔ اظہر نیاز

ایک دینی تنظیم کی طرف سے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے کیمپ لگا ہوا تھا۔جس پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان ہورہا تھا اور اعانت کے لیے کہا جارہا تھا۔ جو صاحب اعلان کررہے تھے وہ غالباً زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور اس پر طرّہ یہ کہ وہ کسی ایسے علاقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے لیے ع بولنا مشکل تھا اور ساتھ ہی ساتھ دو چشمی ھ کی ادائیگی بھی ناممکن تھی۔ چنانچہ جو میں نے سنا وہ یہ تھا ۔ بہائیو اور بہنو! آپ کے تہاون (تعاون) کا بہت بہت شکریہ۔ مجھ میں ایک خرابی ہے کہ خرابی دیکھتا ہوں تو کم سے کم اس کا اظہار ضرور کردیتا ہوں۔

میرا کالم: اظہر نیاز

یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ’15‘ والے اب مجھے نام سے پہچاننے لگے ہیں۔ کہ اکثر و بیشتر میرا ان کو فون چلا جاتا ہے فلاں جگہ ٹریفک جام ہے، فلاں جگہ غلط پارکنگ ہے، اس نمبر کی گاڑی ایک موٹر سائیکل کو مارکر بھاگ گئی ہے یا فلاں یونیورسٹی کی بسیں آپس میں ریس لگارہی ہیں۔ وغیر ہ وغیرہ ۔ چونکہ غلط اردوبولنے پر15کو تو نہیں کہا جاسکتاتھا۔ میں ان صاحب کے پاس چلاگیا۔ پہلے کچھ پیسے دیے تاکہ کیمپ میں بیٹھے ہوئے اکیلے آدمی کے دل میں ذرا سی جگہ بناسکوں۔ پھر ان سے کہا کہ آپ اپنی ھ اور ع درست کرلیں ۔کیونکہ لفظ بہائیو نہیں ہے بھائیو ہے اور تہاون نہیں تعاون ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس شہر سے ہے تو اس نے بتایا کہ میرا تہلق ایبٹ آباد سے ہے۔ میں اس کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ کی تو مجبوری ہے لیکن جس جماعت کے لیے آپ کا م کررہے ہیں ان کی توکوئی مجبوری نہیں۔ ان کے پاس تو بے شمار کارکن ہوسکتے ہیں تو وہ صاحب کہنے لگے کہ بات سمجھ میں آرہی ہے؟ اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے کہا آج کل بات سمجھ پر میں آنے کی نہیں ہے۔ آج کل ہر کام ایک سائنس ہے اور اسے اس طرح کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ موثر ہو۔ اب آپ کے سامنے دس دس کے چند نوٹ پڑے ہیں جبکہ مؤثر لفظوں کی بہتر ادائیگی اور ایک تربیت یافتہ کارکن کی وجہ سے یہاں نوٹوں کی بارش ہوسکتی تھی۔ زلزلہ جیسی ناگہانی آفات سے نبٹنا بھی ایک سائنس ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے یہ جتنی خرابیاں آپ دیکھ رہے ہیں یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ سب سائنس کی وجہ سے ہے۔
مجھے خاموش ہونا پڑا بلکہ اٹھ کر آنا پڑا کہ اچھا اللہ آپ کو اجر دے اور میرے ملک کے جذباتی لوگوں کو ترتیب و تنظیم کی تربیت حاصل کرنے کی خواہش دے۔ دنیا بھر میں آفات سے نبٹنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ حکومت فوری طور پر سارے اختیارات اپنے قابو میں کرلیتی ہے اور رضاکار حکومت کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔اپنے CV بھیجتے ہیں اور پھر ضرورت کے مطابق حکومت ان رضاکاروں کو آفت زدہ علاقوں میں بھیجتی ہے۔ تاکہ خوامخواہ کارش نہ ہو اور لوٹ مار نہ ہو۔ اس طرح ضروریات کی ایک فہرست بن جاتی ہے۔ اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ ان اشیاء کی ضرورت ہے اور اسے ارسال کریں ۔ایک طرح کے آئٹم کا ایک بڑا بنڈل بنایا جاتا ہے جیسے 100کمبل کا ایک پیکٹ۔ اگر کوئی ایک شخص100کمبل نہیں دے سکتا تو دس افراد مل کر دس دس کمبل خریدتے اور پھر ان کا ایک پیکٹ بنالیتے ہیں۔ بڑے کپڑوں کا ایک پیکٹ ہوتا ہے جس پر سائز لکھا ہوتا ہے۔ بچوں کے کپڑوں کے سائز کے مطابق الگ بنڈل ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔ جس کا دل کررہا ہے وہ دو کمبل موٹر سائیکل پر رکھ کر زلزلہ زدگان کے لیے مظفر آباد جارہا ہے کوئی گاڑی بھر کر جارہا ہے کوئی ٹرک لے کر جارہا ہے ۔ اس جذبے کی جتنی قدر کی جائے وہ کم ہے لیکن ہوا کیا کہ انفرادی طور پر جانے والوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ مظفر آباد روڈ پر ایمبولینس تک گزارنے کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ٹرکوں کو جگہ نہیں مل رہی تھی کاروں کی زیادتی کی وجہ سے سڑک بلاک ہوگئی تھی۔ اور پھر جو کپڑے زلزلہ زدگان کے لیے دیے گئے ان میں ٹائیاں اور ہیل والے جوتے بھی شامل تھے ۔اور کپڑوں کا حال یہ تھا کہ قطعی قابل استعمال نہیں تھے۔ پھٹے ہوئے اور پرانے گویا جو گھر میں ناقابل استعمال چیزیں تھیں وہ زلزلہ زدگان کے لیے دے دیں ۔جمع کرنے والوں نے اسی طرح ان کے بنڈل بنائے جیسے لنڈے کے کپڑے ہوتے ہیں اور آگے بھجوادیے جب یہ کپڑے آگے پہنچے تو انہوں نے ان کا صحیح استعمال کیا ۔ آگ جلا کر تاپتے رہے۔
میں ذاتی طور پر کئی افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے جاکر پہلے ضرورت معلوم کی پھر وہ چیزیں خریدیں اور ضرورت مندوں تک پہنچائیں۔اس طرح بہت سے لوگوں نے وہ اشیاء دیں جو نئی تھیں۔ وہ کپڑے دیے جو وہ خود پہننا پسند کرتے۔ لوگوں میں 1965ء کا جذبہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ یہ سب اس راکھ میں چھپی چنگاریاں تھیں۔ جس کو ہم کرید کرید کر تھک گئے تھے ۔ یہ گھپ اندھیرے میں نظر آنے والی دیے کی روشنی تھی۔ لیکن اس دیے میں پاکستانی قوم نے اپنا خون جلایا تھا ۔ اپنی سانسوں کی ڈوری کو دیے کی بتی بنایا تھا۔ یہ جذبہ دوسری کسی قوم میں نظر نہیں آسکتا۔ کس طرح ہم سارے اختلافات بھول کر ایک ہوگئے۔ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس جذبے کو ترازو میں تولا نہیں جاسکتا۔ اس جذبے کو لفظوں میں بولا نہیں جاسکتا۔ اس جذبے کو رنگوں سے تصویر نہیں کیا جاسکتا۔ اس جذبے کو پابند زنجیر نہیں کیاجاسکتا۔
یہ وہ جذبہ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ہمارے اندر کی روشنی کی طرح ہے۔ ایک زندگی کی طرح ہے یہ روشنی کم تو ہوتی ہے ختم نہیں ہوتی۔ اس زندگی کے قدم لڑکھڑاتے تو ہیں سانسیں اکھڑتی نہیں۔ اگر میں کوئی نام دینے کی کوشش کرو ں تو یہ ہمارے اندر’ایمان ‘کا جذبہ ہے ۔ یہ بھائی چارہ وہ ہے جس کا مظاہرہ مدینے کے انصار نے کیا تھا۔ میں اس شخص کو نہیں بھول سکتا جو مظفر آباد سے آیاتھا اس کے دونوں پاؤں زخمی تھے، ہاتھ زخمی تھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کا گاؤں مظفر آباد سے بہت آگے ہے جہاں پہنچتے پہنچتے ہ زخمی ہوگیا کچھ نہیں بچا۔ اس کے گھر والے کھلے آسمان کے تلے پڑے ہیں۔ اتنے میں کسی نے اسے آواز دی انصاری ادھر آؤ۔ ’انصاری‘ دوبارہ اسلام آباد کام پر آگیا تھا۔ ورنہ اس کی نوکری چلی جاتی۔ وہ کچھ کماکر کچھ ادھا ر مانگ کر کچھ ایڈوانس مانگ کر پھر واپس جانا چاہتا تھا۔ ’’انصاری ‘‘ ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ میں تمہیں اپنے آنسوؤں کا تحفہ دیتاہوں کہ میرے پاس یہی ہے۔ اسے اوڑھ لینا۔ اسے بچھالینا۔ سردی لگے تو آگ جلالینا۔ پیاس لگے تو پی لینا۔ انصاری فکر نہ کرو۔ امداد پہنچنے والی ہے۔ میرے آنسو خشک ہونے سے پہلے پاکستانی قوم تمہارے گاؤں تک ضرور پہنچے گی۔ سائنس کی طاقت کے بغیر، قوت ایمان کے سہارے۔