آؤسارے مل کر اپنے گھر کو آ گ لگائیں میرا کالم: اظہر نیاز

کچھ موضوع ایسے ہوتے ہیں جن پر لکھنے کے لئے قلم کام نہیں کرتے انگلیاں تراشنی پڑتی ہیں۔ کچھ حرف ایسے ہوتے ہیں جن کو تحریر کرنے کے لئے روشنائی نہیں خون سے کام لینا پڑتا ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے کاغذ کم پڑجاتے ہیں ۔ زمین کا سینہ چھوٹا لگتا ہے۔ آسمان کی وسعت سمٹ جاتی ہے۔ کائنات کی آفاقیت محض لکڑی کی ایک تختی میں ڈھل جاتی ہے اور اگر اس پر بھی

میرا کالم: اظہر نیاز

لکھا جائے تو تختی پر حرفوں کے ساتھ آنسو گرنے لگتے ہیں اور لکڑی کی تختی سلگنے لگتی ہے۔

آج میں بھی جو لکھنا چاہ رہاہوں وہ ایسا ہی موضوع ہے۔ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک نظم مجھے کہتی ہے کہ مجھے لکھو ایک کہانی مجھے کہتی ہے کہ مجھے لکھو۔ اور میں نہیں لکھتا۔ ایک دن دو دن تین دن بعض اوقات ہفتے گزرجاتے ہیں میں وہ کہانی نہیں لکھ پاتا۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میں کم حوصلہ آدمی ہوں۔ بزدل اور بہت ہی کمزور دل انسان۔ کہ میں اس بے رحم نظم اورشیر کی طرح چنگھاڑتی کہانی کا سامنا نہیں کرسکتا۔آخرمجبور ہوجاتاہوں اور لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کہ نہ لکھوں تو شاید دل کی دھڑکن رک جائے۔ ہوسکتا ہے دم گھٹ جائے۔بس یہی میری مجبوری ہے کہ مجھے لکھنا پڑتاہے۔ اپنے خون سے اپنے آنسوؤں سے۔
ہاں میں بھی توہین رسالت کے موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اس سے آگے نہ پڑھنا چاہیں تو بے شک چھوڑدیں کہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے روزانہ کالم چھپتے ہیں۔ مضامین بیان کئے جاتے ہیں۔صفحات کے صفحات کالے کئے جارہے ہیں۔ سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں بینر لہرا رہے ہیں لوگوں کی زبانوں سے صدقے یا رسولؐ کا ورد جاری ہے۔ میرے نبی سے پیار کرنے والوں کا جوش اور جذبہ دیدنی ہے۔ میں ایک کمزوراور بزدل آدمی اپنے کمرے کے دروازے بند کر کے آنسو بہارہاہوں شاید اس لیے کہ میرے دل میں اﷲکے رسول سے محبت کچھ کم ہے۔ اگر زیادہ محبت ہوتی تو میں بھی سڑکوں پر نعرے لگارہاہوتا ۔ میں بھی کسی بنک کو لوٹ رہاہوتا۔ میں یہ نہیں کرسکا۔ یا رسولؐ اﷲمجھے معاف کردینا کہ میں یہ سب کچھ نہیں کرسکا۔ میں آپ سے محبت کا اظہار نہیں کرسکا۔
میں محبت کے اظہار کی بجائے سوچ میں پڑگیا کیونکہ میرا تعلق حضرت اویس قرنی ؒ کے قبیلے سے ہے جو حضورؐ کے دور میں ہوتے ہوئے ان سے نہیں ملے۔ کہ وہ ان سے ملنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ کہ میں انھیں کیسے دیکھوں گا۔ حضورپا ک ؐنے اپنی چادر مبارک ان کو عنائت کی۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ تمام صوفیا کرام اس بات پر متفق ہیں کہ تابعین میں سے حضرت اویس قرنی ؒ سے اونچا مقام کسی کا نہیں۔ یہ مقام ان کو ماں سے محبت کی وجہ سے ملا۔ یہ مقام ان کو ان کے کمزور دل نے دیا جو آپ ؐ کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ یہ مقام آپ کو آپکی کمزور آنکھو ں نے دیا جو حضورؐ کو دیکھنے سے ڈرتی تھیں۔ سبحا ن اﷲمجھے صیح لفظ ملا کہ یہ مقام ان کو ان کے ڈر نے دیا کہ کہیں ان کو دیکھوں تو بے ادبی نہ ہو جائے۔ میں بھی ڈرتا ہوں کہ میں بھی محبت تو کرتا ہوں حوصلہ نہیں رکھتا۔
ایک بزدل آدمی کی طرح یہ پوچھنے لگتا ہوں کہ لاہور میں کتنے موٹرسائیکل جلادیے گئے۔موٹر سائیکل ایک غریب آدمی کی سواری ہے۔ وہ شخص جو سائیکل پر سفر کرتا ہے موٹر سائیکل کے خواب دیکھتا ہے۔ سائیکل سے یا پیدل چلنے سے موٹر سائیکل تک کا سفر بہت تھکادینے والا ہے۔ اس کی تھکن وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے برسوں ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھانے کے بعد موٹر سائیکل خریدا ہو۔ نیا یا پرانا۔ اور پھر اسے آگ لگادی گئے ہو۔ وہ اب کہاں جائے۔ کس کے پاس جا کر آہ بکا کرے۔ کون اسے دوسرا موٹر سائیکل دلائے گا۔تم لوگوں کی محبت نے کئی خاندان کی خوشیاں چھین لیں۔ سینکڑوں بچوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ۔کتنے لوگوں کی برسوں کی محنت کی کمائی ایک لمحے میں جلا دی گئی۔کس لئے؟ نہیں میں یہ نہیں کرسکتا یہ توہین رسالت میں نہیں کرسکتا۔ جب سورہ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب کی بیوی اُمّ جمیل گستاخانہ اشعار پڑھتی ہوئی خانہ کعبہ گئی ۔ حضور اور صدیق اکبر خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اسے دور سے آتے دیکھا تو کہنے لگے کہ ابولہب کی بیوی غصے میں آرہی ہے اور برے اشعار بھی پڑھ رہی ہے کہیں آپ کو کچھ نہ کہے۔ حضور نے فرمایاتم فکر نہ کرو وہ مجھے دیکھ نہیں سکے گی۔وہ پاس آئی اور حضرت صدیقؓ سے پوچھنے لگی۔تمہارے صاحب کہاں ہیں حضرت صدیقؓ نے پوچھا کیا ہوا کہنے لگی کہ اس نے ہمارے خلاف نظم بنائی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ انہوں نے تم لوگوں کے خلاف کوئی نظم نہیں بنائی۔ اور وہ پھر اس طرح گستاخانہ اشعار پڑھتی ہوئی چلی گئی۔
کیاابوبکر صدیق آج کے مسلمانوں سے (نعوذبااﷲ) کم محبت کرتے تھے۔ کیو ں نہیں تلوار نکالی اور ابولہب کی بیوی کا سر کاٹ کر پھینک دیا۔ حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کی حضور ؐسے محبت کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے۔ حضورؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے تو ایک طرف‘ زمین کو الٹا کر رکھ دیتے۔ نہیں ایسا نہیں کیا۔ کیوں نہیں کیا۔ اس لئے کہ ان کی تربیت حضورؐ نے کی تھی۔ ان کے لیڈر حضورؐ تھے۔ اور حضور ؐکی زندگی ان کے سامنے تھی۔ طائف کا سفر ان کے سامنے تھا۔ ابوجہل کا رویہ ان کے سامنے تھا۔ مکہ سے دربدری ان کے سامنے تھی۔ وہ جانتے تھے کہ حضور ؐکی تعلیم کیا ہے حضور ؐکی سنت کیا ہے حضور ؐکی زندگی کیا ہے اور یہ چلتے پھرتے انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے قرآن کا درس کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تلوار سے ملک فتح نہیں کیئے۔ دلوں پر حکومت کی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا سکتا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ محبت کی وجہ سے ۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ نہ ہوجائے جس سے حضور ؐنے منع فرمایا ہے۔ کہیں ہم وہ نہ کر گزریں جو حضورؐ کو پسند نہیں ۔ افسوس ہم وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو حضورؐ کو پسند نہیں اور وہ بھی ان سے محبت کے نام پر۔
میں قاضی حسین احمد صاحب کو تو مورد الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ ان کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کافی دیر ہو گئی تھی اور انہیں سڑکو ں پر آنا تھا۔ باقی سب لوگ بھی جو لوگوں کو ورغلاکر سڑکوں پر لارہے ہیں اس کے بعدعمارتوں کو آگ لگارہے ہیں۔ کاریں تباہ کر رہے ہیں لوگوں کو مارا جارہا ہے۔ پرامن جلوس میں شرکاء کے پاس ہتھیار کہاں سے آجاتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔توہین رسالت کے نام پر اپنی لیڈری چمکا ئی جارہی ہے۔ مجھے ان جماعتوں کے سب پڑھے لکھے شخص سے جواب چایئے ۔ کہ توہین رسالت کیا ہے ؟ حضور پاک ؐنے فرمایا ذخیرہ اندوز ی نہ کرو۔ مل مالکان چینی ذخیرہ کرکے مہنگی بیچ رہے ہیں ۔ یہ تو ہین رسالت نہیں؟ قاضی صاحب کی زبان سے ایک بھی لفظ ان شوگر مل کے مالکان کے خلاف کیوں نہیں نکلتا وہ کیوں اس ذخیرہ اندوزی کے خلاف ہڑتال نہیں کرتے؟
حضور ؐپاک نے مہمان کے لئے کیا حکم دیا ہے ؟علماء کرام میر ے سے زیادہ جانتے ہیں۔ دو چینی انجینئر ہمارے ملک میں مارے گئے جو مہمان بھی تھے اور ہمارے ملک پاکستان کی خدمت بھی کررہے تھے۔ ان کا قتل توہین رسالت نہیں؟ کیوں قاضی صاحب ان قاتلوں کو پکڑنے کے لیے مظاہرہ نہیں کرتے۔ کیا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا توہین رسالت نہیں؟ پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااﷲیہ ہے لاالہ الااﷲکا مطلب ؟ یہ ملک جو ہم سب کے لئے مسجد کا درجہ رکھتا ہے اس کی اس طرح بے حرمتی توہین رسالت نہیں؟ پوری تاریخ اسلام میں ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ ہم نے اپنے دشمنوں کے گھروں کو آگ لگائی ہو۔ آج ہم اپنے گھر کو آگ لگا رہے ہیں ۔ کیا یہ توہین رسالت نہیں؟میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ جو کچھ پاکستان کے ساتھ کررہے ہیں انہوں نے آج تک اس ملک کو اپنا نہیں سمجھا ۔ اسے اپنا گھر نہیں سمجھا۔ورنہ کوئی اپنے گھر کے ساتھ ایسا کرتا ہے؟ کوئی میرے گھر میں داخل ہو کر تو دکھائے۔ کوئی ایک چیز اٹھا کر دکھائے۔ کسی ایک چیز کو توڑ کر دکھائے۔ میں جان پر کھیل جاؤں گا لیکن ایک روپیہ کا نقصان نہیں ہونے دوں گا۔
لیکن یہ ملک معلوم نہیں کس کا ہے۔
’’ہمارا ہے‘ ‘ یہ کس نے کہا کہیں دور’ سے آواز آئی ہے۔ چلوایک کام کرتے ہیں تھوڑی دیر کے لیے میں بھی اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں۔

یہ نہ ہو کہ اس کام میں ہم پیچھے رہ جائیں
آو سارے مل کر اپنے گھر کو آگ لگائیں