’اتنا کافی ہے‘ اظہر نیاز

اﷲ کا شکر ہے کہ ہمیں آزادی اظہار حاصل نہیں۔ اس کی وجہ کوئی حکومتی پابندیاں نہیں بلکہ اس دین فطرت کی طرف سے پابندیاں ہیں جس نے قلم کی حرمت کی قسم کھائی ہے ۔ جس نے آواز کو تخلیق کیا ‘ آواز کو معنی دیے‘ معنوں کو شکل دی۔ شکلوں کو لفظ کی صورت دی۔ لفظوں کو لکھنا سکھایا۔ قلم اور روشنائی کا سفر پرنٹنگ پریس اور کمپیوٹر کی منزلیں طے کرتا اکیسویں صدی میں داخل ہوا۔
قسم ہے اس رب کائنات کے عطا کیے ہوئے قرآن کی کہ آج تک کا انسان ایک آیت بھی اس جیسی نہیں لکھ سکااور یہ چیلنج قیامت تک کے لیے ہے کہ کوئی نہیں لکھ سکے گا۔قسم ہے اس رب ذوالجلال کی کہ اس دنیا کے سارے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سارے سمندروں کی روشنائی بنائی جائے تو بھی اس کی مدح ادھوری رہ جائے۔ قسم ہے اس کے محبوب اور مولائے کلؐ کی کہ رحمت للعالمین ان کا لقب ٹھہرا۔ گلے کاٹنے والوں کو گلے لگا لیا۔ پتھر مارنے والوں کو دعاؤں سے گل گلزار کر دیا۔ قسم ہے محسن انسانیت کے صحابہ کی کہ منہ پر تھوکنے والے کے گلے سے تلوار اٹھالی کہ اﷲ کے لیے قتل ذاتی دشمنی میں نہ آ جائے۔
قسم ہے تاریخ اسلام کے ان نامور اماموں ‘ مؤرخوں اور مفسروں کی کہ ہم مسلمان لکھنابھی جانتے ہیں اور لکھے ہوئے قول کو نبھانا بھی

اظہر نیاز

جانتے ہیں۔ قسم ہے اپنے اسلاف کے کارناموں کی سپہ سالاروں ‘کی اور بہادروں کی کہ ہم آزادی سے واقف ہیں اور اظہار رائے کی آزادی سے بھی واقف ہیں۔
ہمارے ہاں جب مسجد کی حکومت تھی تو تاریخ اسے سنہرا دور کہتی ہے۔ مغرب میں جب چرچ کی حکومت تھی تو اسے مغرب کے مؤ رخ Dark Ages کہتے ہیں۔ مغرب نے آزادی نئی نئی دیکھی ہے اور ہم چودہ سو سال سے آزاد ہیں۔مغرب دوسروں کے ملکوں پر قبضہ کرنے کو غلامی اور اپنے پنجہ ظلم سے نجات دینے کو آزادی کہتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ قوموں کو زنجیریں تو پہنائی جاسکتی ہیں غلام نہیں بنایا جاسکتا۔مغرب اپنی نمود و نمائش ‘ بے راہ روی اور بد اخلاقی کا غلام ہے اور ہم اپنے رب کے عطا کردہ قوانین میں آزاد ہیں۔ ہاں مغرب آزادہے مگر مادر پدر آزاد ہے۔
اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ڈنمارک کے اخبار ( میں اخبار کا نام لکھ کر اپنا قلم گندا نہیں کرنا چاہتا) نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خاکے بناکر شائع کئے وہ اس اخبار کی جرأت نہیں بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک سازش نے کام کیا۔ بھاری رقم خرچ کر کے چند بے ضمیر آرٹسٹوں کو یہ کام کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا۔ اس کے پیچھے ایک مقصد تھا اور یہ مقصد ان سرمایہ کاروں نے حاصل کیا۔
مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو غصہ دلا کر دنیا بھر میں ہنگامے کرانا‘ جلسے جلوسوں کے اندر اپنے لوگ شامل کر کے توڑ پھوڑ کرانا‘ آگ لگانا‘ ہجوم کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ایسے کام کرانا جس سے مجموعی طور پر یہ تاثر بن سکے کہ مسلمان اچھے لوگ نہیں ہیں اور مغرب جو ان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے وہ بالکل مناسب ہے اور مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے نکال دینا چاہیے۔
اس پوری سازش کے پیچھے کون لوگ ہیں‘ کون سے ملک ہیں‘ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس پوری روئیداد میں چند باتوں کا اعادہ ضروری ہے کہ جب یہ خاکے چھپے تو ڈنمارک کے مسلمانوں نے اخبار مالکان سے کہا کہ وہ معافی مانگیں ۔ اگر وہ معافی مانگ لیتے تو بات وہیں ختم ہوجا تی مگر بات ختم کرنے کے لئے تو وہ خاکے شائع ہی نہیں کئے گئے تھے ۔ ڈنمارک میں گیارہ مسلمان ملکوں کے سفیروں نے ڈنمارک کےوزیراعظم سے مذاکرات کے لیے وقت مانگا اور وزیراعظم نے انکار کردیا کہ اس سلسلے میں کوئی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارا میڈیا آزاد ہے۔ عرب ممالک اور ایران نے بھی معافی مانگنے کا مطالبہ کیا لیکن ڈنمارک حکومت ہٹ دھرمی سے آزادی اظہار کے نعرے لگاتی رہی یہاں تک کہ ان کے کانوں نے مسلمانوں کے نعرے سننے شروع کردیے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا سب جانتے ہیں۔ ڈنمارک کے وزیراعظم نے جو گیارہ سفیروں سے ملنے کو تیار نہیں تھے پچھتر ممالک کے سفیروں کے سامنے معافی مانگی ‘ لیکن تو بہ کے دروازے بند ہونے کے بعد۔ اس کے بعد ڈنمارک کی حکومت نے امریکہ ‘ نیٹو اور یورپی یونین سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔عرب ممالک سے درخواست کی ہے کہ ہماری مدد کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ گروپ اب بھی ڈنمارک اور ناروے میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہمارا ملک چھوڑ دو۔ اس سلسلے میں جہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے احتجاج نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا اور ڈنمارک کی معیشت کی جڑیں ہلا دیں وہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس واقعہ نے عالم اسلام کو ایک کر دیا۔ ایک قوت کا مظاہرہ دنیا نے دیکھا ۔ اس موقع نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ہم اگر چاہیں تو کیا کر سکتے ہیں تو پھر ایسا صرف غصے ہی میں کیو ں کرتے ہیں۔ ہم کشمیر کے مسئلے پر ایک کیوں نہیں ‘ ہم فلسطین کے مسئلے پر ایک کیوں نہیں ہم چیچنیا کے مسئلے پر ایک کیوں نہیں ۔ ہم ایران اور عراق کے مسئلے پر ایک کیوں نہیں۔ ہم دنیا بھر میں ہونے والے ظلم کے سامنے کیوں ایک دیوار نہیں۔ اور پھر یہ کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ہم آواز ہیں تو مسلمانوں کے حکمران ہم آواز کیوں نہیں۔ ہم کیوں محتاج ہیں ہم کیوں غنی نہیں۔ ہم مالدار ہونے کے باوجود کیوں ہاتھ پھیلائے مانگ رہے ہیں۔ ہم جو علم کیمیا کے وارث ہیں جدید علوم کی مٹی چاٹ رہے ہیں۔ کتنے بڑے بڑے ناموں سے ہماری کتابیں بھری پڑی ہیں اور ہم معمولی کمپیوٹر وائرس سے خوفزدہ ہیں۔ مغرب آج ہمارے علوم و فنون کی بنیاد پر اپنے محل تعمیر کر رہا ہے اور ہمیں اپنے ورثاء کے کھنڈرات میں دفن کر رہا ہے۔ جب لندن کی گلیوں میں دھول اڑتی تھی تو بغداد کی گلیاں رات کے وقت بھی دن کا سماں پیش کرتی تھیں ۔ آج بغداد کی گلیوں کو کیا ہوا ہے۔ ہمارا ورثہ ہماری عزت ‘ ہماری غیرت ‘ ہماری خودی؟
جلاہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
ایک چنگاری کی جستجو تھی سو مل گئی۔ یہ میرے آقا کی محبت تھی جو مردہ جسموں میں خوابیدہ تھی۔
بمصطفی برساں خیش را کہ دیں ہمہ اوست
اگربہ او نہ رسید ی تمام بو لہبی است
آج یورپ اور امریکہ کو اسلام کے معنی یاد آ گئے ہیں کہ اسلام کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں اس لیے مسلمان امن کا راستہ اختیار کریں۔ انہیں عیسائت اور یہودیت کی تعلیم کیو ں یاد نہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے کہاں کہا ہے کہ دوسروں کے دین کا تمسخر اڑاؤ۔ حضرت موسی علیہ اسلام نے کہاں لکھا ہے کہ دوسروں کے نبیوں کے خاکے بناؤ۔ خدا جانتا ہے کہ آج ان دونوں پیغمبروں کو بھی اتنی ہی تکلیف ہوئی ہوگی جتنی آج دیگر مسلمانوں کو ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے اس بات کا درس نہیں دیا۔ یہاں تک کہ کسی نازی‘ کسی کمیونسٹ ملک کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کسی ذمہ داری کے تحت آتی ہے‘ کسی اخلاق کی مقید ہوتی ہے ‘ کچھ اقدار کی پابند ہوتی ہے۔ تم کس آزاد میڈیا کی بات کررہے ہو۔ الجزیرہ ٹی وی پر اسامہ بن لادن کا پیغام نشر ہوتا ہے تو تم شور مچاتے ہو کیوں نشر کیا گیا۔ عراق میں مرنے والے دو امریکیوں کی لاشیں ٹی وی پر دکھادی گئیں تو شور مچ گیا کہ کیوں دکھا ئی گئیں کہ یہ میڈیا کی اخلاقیات کے خلاف تھیں ۔ یہ دہرے معیار آپ نے اپنے تحفظ کے لیے بنارکھے ہیں۔ آج بھینس آپ کی ہے کہ آپ کے پاس لاٹھی ہے۔ اس جنگل کے قانون کو آپ آزادی اظہار کہتے ہیں؟
سب آزادیا ں آپ کے لئے ہیں۔ ایک مسلمان کو کوئی آزادی نہیں ۔ ایک مسلمان کو تو یہ بھی آزادی نہیں کہ وہ سڑکوں پر آپ کو عریاں نہ دیکھے ۔ پارکوں میں اپنے بچوں کو لے جائے تو آپ کی بے ہودہ آزادی سے محفوظ رہے۔ ساحل سمندر پر اخلاق باختہ مناظر سے محفوظ رہ سکے ۔ اپنی ساری ذھنی پراگندگی اپنے گھروں اور غسل خانوں سے نکال کر سڑکوں پر پھینک دیتے ہو کہ آپ کو آزادی ہے۔ ایک مسلمان کو آزادی نہیں کہ وہ اس گندگی سے اپنے آپ کو ‘ اپنے بچوں کو بچا سکے۔ یہ ہے آپ کی اور آپ کے میڈیا کی آزادی؟
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
آخر میں مسلمان بھائیوں سے اتنی درخواست کروں گا۔ اتنا کافی ہے ۔جو کچھ آپ نے کیا ۔ اچھا کیا ‘ اس اچھا کیا کے لیے میرے پاس صرف ایک جواز ہے کہ اگر ہم یہ سب نہ کرتے تو شاید دنیا ہمیں مردہ سمجھتی کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہی نہیں۔ جو چاہے ان کے خلاف لکھو‘ جو چاہے بناؤ‘ جو چاہو دکھاؤ‘ جس پر چاہے چڑھ دوڑو‘ جو چاہے فیصلے کرو‘ مسلمان چپ چاپ قبول کر لیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا‘ ٹھیک کیا۔ کتھارسس ہو گیا۔ اب جو کام باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس غصے کو ایک آواز بناناہے‘ عالم اسلام کی آواز۔ حضورؐ کی محبت کی جو چنگاری روشن ہوئی ہے اسے بجھنے نہ دیں ۔ آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں ۔ اس پر عمل کریں ۔ چیزوں کا بائیکاٹ جاری رہنا چاہیے لیکن توڑ پھوڑ بند ہونی چاہیے کیونکہ یورپ اسلام کے معنی جان گیاہے۔ اتنا کافی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان خاکوں کے بعد ڈنمارک اور ناروے میں میرے نبی ؐ سے پیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا‘ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ انشاء اﷲ۔